تیرا رتبہ بہت بلند سہی
دیکھ میں بھی اللہ کا بندہ ہوں…!!!!
بچے انسانی معاشرے کا ایک اہم جزو ہیں۔ معاشرے کے دیگر افراد کی طرح ان کا بھی ایک اخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ ہے۔ بہت سے امور ایسے ہیں جن میں بچوں کو تحفظ درکار ہوتا ہے۔ ریاست، آئین اور قانون جس طرح ہر انسان کے بنیادی حقوق کی پاسداری کرتے ہیں، اسی طرح بچوں کو بھی ان کے حقوق کی ادائیگی و حفاظت کی ضمانت دیتے ہیں- ایک غریب مظلوم بچہ امیر شہر سے یوں مخاطب ہے:
اے امیر شہر بتا تو سہی!
ہمارا جرم کیا ہے
غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر والدین اپنے کمسن بچوں کو محنت مزدوری اور امرا کے گھروں میں مشقت پر لگا دیتے ہیں جب ان کے کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں وہ لوگوں کے گھروں میں صفائی اور برتن صاف کرتے ہوئے وقت گزارتے ہیں سونے کے لیے انہیں کوٹھی کے باہر ایک چھوٹے سے کمرے میں فرش پر سونا پڑتا ہے گھر میں صفائی ستھرائی کے علاوہ برتن اور اہلخانہ کے جوتے پالش کرنا بھی ان کمسن بچوں کے ذمے ہوتا ہے یہ کمسن بچے جب ان امرا کے بچوں کو کھلونوں سے کھیلتے اور خود کو جوتے پالش کرتے دیکھتے ہیں تو ان میں ایک احساس محرومی پیدا ہو جاتا ہے جو ساری زندگی ان کے ذہنوں سے نہیں نکل سکتا ناپختہ ذہنوں میں ہر وقت یہ احساس پیدا ہوتا رہتا ہے کہ یہ تفریق کس نے پیداکی ہے پڑھنا لکھنا‘ کھیلنا کودنا‘ اور دو وقت کی روٹی شاید انکا نصیب نہیں بچے انسانی معاشرے کا ایک اہم جزو ہیں معاشرے کے دیگر افراد کی طرح ان کا بھی ایک اخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ ہے بہت سے امور ایسے ہیں جن میں بچوں کو تحفظ درکار ہوتا ہے- معاشرتی بے حسی اور معاشی مجبوری کے باعث پاکستان میں کم عمر بچوں سے مشقت کروانا ایک ایسا جرم ہے جس میں خود والدین اعانت جرم کے مرتکب ہیں غریب لوگ بے چارے اپنی معاشی مجبوری کی بنا پر اپنے چھوٹے بچوں کو ان امراکے گھروں میں ملازم رکھواتے ہیں امرا اور متمول گھرانوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جینے کا حق صرف ان کو ہے ان کے نزدیک غربا و محتاج لوگ جینے کا حق نہیں رکھتے یہ امرا اپنے مال اور طاقت کے نشے میں اتنے دھت ہیں کہ اپنے گھروں میں رکھے ملازمین پر ناجائز سختی کرنا اپنا حق تصور کرتے ہیں یہ اپنے گھروں میں کام کرنے والے چھوٹے بچوں اور بچیوں پر تشدد کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات یہ بچے معذور ہوجاتے ہیں یا ان کی موت واقعہ ہوجاتی ہے- کم سن گھریلو ملازمین کے ساتھ بدسلوکی میں والدین کی غربت اورغفلت دونوں شامل ہیں ریاست کو اس سلسلے میں جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ قطعی ادا نہیں کررہی ہمارے معاشرے میں ظلم کی انتہا یہ ہے کہ ہر بڑا جاگیردار اور وڈیرہ معمولی معمولی کوتاہیوں پر اپنے گھریلو ملازمین پر بہت زیادہ تشدد کرتا ہے ان ظالموں نے اپنی نجی جیلیں اور قید خانے قائم کررکھے ہیں جہاں پر ان معصوم، غریب اور بے کس گھریلو ملازمین پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں- ایک عرصہ ہوگیا ہےاس ظلم وستم کو جاری رہتے ہوئے، یہ ریاست کی زمہ داری ہے کہ اس ظلم کورکوائےورنہ ایسا نہ ہوکہ ظلم سہنے والے بغاوت پر اتر آیں۔ ظالموں کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ
ان اندھروں کا جگرچیر کے نور آئے گا
تم ہو فرعون تو موسی بھی ضرور آئے گا