کیا تمہیں یاد بھی نہیں ہوں میں


ایک اجڑی ہوئی زمیں ہوں میں
اجنبی شہر کا مکیں ہوں میں

گو کہ مدت سے دورِ ہجراں ہے
کیا تمہیں یاد بھی نہیں ہوں میں؟

آج کل خود سے دور رہتا ہوں
پاس اپنے بھی اب نہیں ہوں میں

اب مری بندگی سے راضی ہو!!
تیرے در پر جھکی جبیں ہوں میں

نَحنُ اَقرَب بھی تُو, تُو ای ہر جاء
جانتا ہوں کہیں نہیں ہوں میں!!

تُو ملا ہے تو میں نے جانا ہے
آئینہ جھوٹ تھا! حسیں ہوں میں

تم بھی میرے فسوں میں مت آنا
آج کل سخت دل نشیں ہوں میں.

زین الجھا ہوا ہوں مدت سے
زلفِ جاناں کی برہمی ہوں میں

Go Kay Mudat Say Dor e Hijraan hai
Kia Tumhein Yaad Bhi Nahin Hun Mein


اپنا تبصرہ بھیجیں