فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذبٰن
تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے
اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کیجئے!!
مسلمانان گرامی!اللہ تعالیٰ کے اسما، صفات اور افعال ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت کا حصول ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت، تعظیم اور توحید کے اقرار کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ’الوہاب‘ اور اس کی ایک صفت ’الکرم‘ ہے۔ اسی صفت کے ساتھ اللہ تعالیٰ لوگوں کو نعمتیں عطا فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کو ایسی نعمتوں سے بھی سرفراز فرما دیتا ہے جو وہ مانگتے ہیں اور ایسی نعمتیں بھی عطا کرتاہے جواس نے مانگی بھی نہیں ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد
فرمایا:
وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ’’اور جو کچھ تم نے مانگا سب میں نے تم کو عنایت کیا۔‘‘(ابراہیم : 34)
وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا’’اور اگر اللہ کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کر سکو ۔‘‘ (ابراہیم : 34)
اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ دراصل اس کے شکر، توحید کے اقرار اور عبادت کا جذبہ پیدا کرتا ہےاور یہی اخروی کامیابی کا حقیقی سبب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ نجات حاصل کرو۔‘‘ (الاعراف : 69)
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بھی اس کی نعمتوں کو یاد رکھنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:
إِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ۖ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ’’ہر تصور کرو اس موقع کا جب اللہ فرمائے گا کہ “اے مریم کے بیٹے عیسیٰؑ! یاد کر میری اس نعمت کو جو میں نے تجھے اور تیری ماں کو عطا کی تھی، میں نے روح پاک سے تیری مدد کی، تو گہوارے میں بھی لوگوں سے بات کرتا تھا اور بڑی عمر کو پہنچ کر بھی، میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی، تو میرے حکم سے مٹی کا پتلا پرندے کی شکل کا بناتا اور اس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا، تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کرتا تھا، تو مُردوں کو میرے حکم سے نکالتا تھا، پھر جب تو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادو گری کے سوا اور کچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے اُن سے بچایا ‘‘ (المائدۃ :110)
ہمارے نبی کریمﷺ سے فرمایا:
أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى (6) وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى (7) وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى [الضحى: 6- 8]’’بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ (بے شک دی) اور راستے سے ناواقف دیکھا تو سیدھا راستہ دکھایا اور تنگدست پایا تو غنی کر دیا۔‘‘
حضرت ہودؑ نے ان الفاظ میں اپنی قوم کو اللہ کی نعمتیں یاد کرنے کا کہا:
’’اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد سردار بنایا اور تمہیں پھیلاؤ زیادہ دیا۔‘‘(الاعراف : 69)
حضرت صالح ؑ نے اپنی قوم سے کہا:
وَاذْكُرُوا إِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ وَبَوَّأَكُمْ فِي الْأَرْضِ تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِهَا قُصُورًا وَتَنْحِتُونَ الْجِبَالَ بُيُوتًا [الأعراف: 74]’’ یاد کرو وہ وقت جب اللہ نے قوم عاد کے بعد تمہیں اس کا جانشین بنایا اور تم کو زمین میں یہ منزلت بخشی کہ تم اُس کے ہموار میدانوں میں عالی شان محل بناتے ‘‘
شعیبؑ نے اپنی قوم سے کہا :
وَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ [الأعراف: 86]’’ یاد کرو وہ زمانہ جبکہ تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمہیں بہت کر دیا۔‘‘
اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم س کہا:
اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ [إبراهيم: 6]’’ “اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے اس نے تم کو فرعون والوں سے چھڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اوس اور خزرج کو مخاطب کر کے فرمایا:
وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا [آل عمران: 103]’’ اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے ‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں سے فرمایا:
وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ [الأنفال: 26]’’ اد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبُوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچای ‘‘
غزوہ احزاب کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا [الأحزاب: 9]’’ اد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اُس نے تم پر کیا ہے جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں ‘‘
نبی کریمﷺ نے انصار سے کہا میں نے تمہیں بے راہ نہیں پایا تھا، سو اللہ نے تمھیں میرے ذریعے سے ہدایت بخشی اور تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم تنگ دست تھے میرے ذریعے سے اللہ نےتمھیں غنی کر دیا۔ (متفق علیہ)ایک دفعہ صحابہ کرام اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کر رہے تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ آپﷺ نے ان کے بیٹھنے کا سبب پوچھا تو انھوں نے کہا اللہ نے ہمیں اسلام کی جو ہدایت بخشی اور ہم پر جو دوسرے احسانات کیے ہیں ہم ان کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ (متفق علیہ)حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمان کے درمیان جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی طرف سےانسان کے لیے تحفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ [الجاثية: 13]’’اور جوکچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا۔‘‘
اور دین ہی کی بدولت انسان پر اللہ کی نعمتوں کی تکمیل ممکن ہے۔
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا [المائدة: 3]’’آج ہم نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کی نعمت پر خوش ہونے کا حکم دیا۔ فرمایا:
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا [يونس: 58]’’کہہ دو! (یہ کتاب) اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے (نازل ہوئی ہے) تو چاہیے کہ لوگ اس سے خوش ہوں۔ ‘‘
ابن عباس کے نزدیک یہاں فضل سے مراد قرآن ہے۔ جس سے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس پر ثابت قدمی کی نماز کی ہررکعت میں ان الفاظ میں دعا کرتے رہو:اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ [الفاتحة: 6]جو شخص یہ سوچتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت کے ساتھ جنت کا وارث بنا دیا اور کوئی دوسرا اس سے محروم ہوگیا تو اس کے دل میں اللہ کی نعمتوں کی قدر و قیمت میں بے حد و حساب اضافہ ہو جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں، جس نے اپنے ساتھی کو جہنم میں جلتے ہوئے دیکھا تھا، کے الفاظ کو یوں بیان فرمایا:
تَاللَّهِ إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ (56) وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّي لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِينَ [الصافات: 56، 57]’’ خدا کی قسم، تُو تو مجھے تباہ ہی کر دینے والا تھا (56) میرے رب کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو آج میں بھی اُن لوگوں میں سے ہوتا جو پکڑے ہوئے آئے ہیں ‘‘
صحت و عافیت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو! یعنی مصیبتوں، آفتوں اور شر سے سلامتی مانگو، کیونکہ آج تک کسی شخص کو عافیت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ملی۔‘‘ (مسند احمد)
اور صحت کی طرح فراغت بھی بڑی قابل قدر نعمت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«نِعمتان غبونٌ فيهما كثيرٌ من الناسِ: الصحةُ والفراغُ»؛ رواه البخاري.’’دو نعمتیں ایسی ہی جن کے بار میں بہت سے لوگ لا پروائی برتتے ہیں۔ صحت اور فراغت۔ ‘‘
نعمتوں کے شکریہ ادا کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ انسا ناللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«إن اللهَ ليرضَى عن العبد أن يأكلَ الأكلَةَ فيحمَده عليها، أو يشربَ الشربةَ فيحمدَه عليها»؛ رواه مسلم’’اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ بندہ کھانے کا لقمہ کھائے یا مشروب کا کوئی گھونٹ بھرے تو اس پر اللہ کی تعریف کرے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ [الضحى: 11]’’اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے رہنا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت جیسی نعمت کے شکریے کا ایک انداز یہ ہے کہ اس بات پر خوشی کا اظہار کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور اس پر ثابت قدمی عطا فرمائی۔ مال جیسی نعمت کا شکریہ ہے کہ اللہ نے جو رزق عطا کیا ہے اس میں راہ خدا میں خرچ کیا جائے اور عافیت جیسی نعمت کا شکریہ یہ ہے کہ انسان اپنے تمام اعضا کو اللہ کی اطاعت میں لگائے رکھے۔اللہ کی نعمتوں سے محروم لوگوں کو ذہن میں رکھنے سے اس کی نعمتوں کی قدر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ رسول اکرمﷺ جب بستر پر آتے تو نعمتوں پر اللہ کی حمد بیان کرتے اورنعمت سے محروم لوگوں کو یاد کرتے۔حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ بستر پر آکر یہ دعا فرماتے:
«الحمد لله الذي أطعمنا وسقانا وكفانا وآوانا، فكم ممن لا كافِيَ له ولا مُؤوِي»؛ رواه مسلم.’’ہر قسم کی تعریف اس ذات کے لیے زیبا ہے جس نے ہمیں کھلایا، پلایا، جوہمیں کافی ہو گیا اور جس نے ہمیں ٹھکانا دیا۔ کتنے ہی ایسے ہیں کہ جنھیں نہ کوئی کفایت کرنے والا ہے اور نہ ٹھکانا دینے والا۔‘‘
رسو ل اللہﷺ نے ایک مقام پر فرمایا:
’’تم اسے دیکھو جو دنیاوی اعتبار سے کم ہے، اسے نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہے، بہت ممکن ہے کہ اس طرح تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر جاننے سے بچ جاؤ۔‘‘
رسول اللہﷺ اکثر یہ دعا بھی پڑھا کرتے:
«اللهم إني أعوذُ بك من زوال نعمَتك، وتحوُّل عافيتك، وفُجاءة نقمتِك، وجميع سخَطك»؛ رواه مسلم.’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، نعمت کے زائل ہو جانے سے عافیت کے پھر جانے سے، اچانک پکڑاور تیری ہر طرح کی ناراضی سے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا جائے تو وہ باقی نہیں رہتیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ [إبراهيم: 7].’’ اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے ‘‘
آدمی جب کوئی گناہ کرتا ہے تواس کے گناہ کے مطابق کوئی نعمت زائل ہو جاتی ہے ۔ امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں:
’’نافرمانیاں نعمت کو یوں کھا جاتی ہیں جیسے آگ لکڑی کو۔ جب تو دیکھے کہ نافرمانی کے باوجود تم پر نعمتیں پوری طرح نازل ہو رہی ہیں تو تجھے ڈرنا چاہیے کہ یہ استدراج ہو سکتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ (182) وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ [الأعراف: 182، 183].’’ ہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی (182) میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے ‘‘
نبی کریمﷺ نے فرمایا :جب تو دیکھے کہ نافرمانی کے باوجود اللہ تعالیٰ بندے کو نعمتیں عطا فرما رہا ہے تو وہ استدراج ہے۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ [الأنعام: 44]؛ رواه أحمد.’’ہر جب انہوں نے اس نصیحت کو، جو انہیں کی گئی تھی، بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوشحالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ اُن بخششوں میں جو انہیں عطا کی گئی تھیں خوب مگن ہوگئے تو اچانک ہم نے انہیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔ ‘‘
ہر نعمت کے بار ے میں انسان کو محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے اور شکر بجالانا چاہیے بصورت دیگر یہی نعمت ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے۔ علاوہ بریں انسانوں سے ہر عطا کردہ نعمت کے بارے میں دریافت کیا جائے گاکہ آیا اس نے اس کی قدردانی کی یا ناقدری کی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«إن أولَ ما يُسألُ عنه العبدُ يوم القيامةِ – أي: من النِّعَم -: أن يُقال له: ألم نُصِحَّ لك جسمَك ونرويكَ من الماء البارِد؟»؛ رواه الترمذي.’’قیامت کے دن بندے کو سب سے پہلے نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا کیا ہم نے تمھیں صحیح سالم جسم نہ دیا تھا اور ٹھنڈے پانی سے سیراب نہ کیا تھا۔‘‘
کچھ بدنصیب تو ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے نعمت عذاب کا باعث بن جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ [سبأ: 37]’’ یہ تمہاری دولت اور تمہاری اولاد نہیں ہے جو تمہیں ہم سے قریب کرتی ہو ہاں مگر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے یہی لوگ ہیں جن کے لیے اُن کے عمل کی دہری جزا ہے، اور وہ بلند و بالا عمارتوں میں اطمینان سے رہیں گے ۔‘‘
حضرت حسن بصری فرماتےہیں:’’اللہ تعالیٰ جب تک چاہے بندے کو مستفید کرتا ہے جب وہ شکر ادانہ کرے تو اللہ اسے عذاب میں بدل دیتا ہے۔‘‘مسلمانو! اللہ بہت سخی ہے، اس کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں، وہ دن رات فیاضی کے دریا بہا رہا ہے، وہ علیم اور حکمت والا ہے، ہر بندے کو اس کےحسب حال نعمتیں عطا کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَكِنْ يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَا يَشَاءُ [الشورى: 27]’’اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق میں فراخی کردیتا تو وہ زمین میں فساد کرنے لگتے لیکن اللہ جس قدر چاہتا ہے اندازے کے ساتھ نازل کرتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ بہت باریک بین ہے ہے وہ کبھی بندے کے حسب تمنا نعمت روکت لیتا ہے، مؤمن کے درجات بلند کرنے کے لیے مصائب میں مبتلا کرتا ہے۔ اور مومن شکر اور رضا کے درمیان اور صبر و استغفار کے درمیان زندگی بسر کرتا ہے۔ أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ [لقمان: 20].بارك الله لي ولكم في القرآن العظيم، ونفعني الله وإياكم بما فيه من الآياتِ والذكرِ الحكيم، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولجميع المسلمين، فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم.
دوسرا خطبہ
اے مسلمانو! یہ چیز انسانی فطرت میں داخل ہے کہ جو بھی اس کے ساتھ احسان کرے دل اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ۔ یاد رکھو اللہ سے بڑھ کر کوئی بھی احسان کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ کی مخلوق ہر وقت اس نعمتوں سے سے مستفید ہوتی ہے اورجس شخص نے نافرمانی پر تعاون بھی کیا گویا اس نے نا شکری کی اور نعمتوں کی اکثریت کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ [سبأ: 13]’’اور میرے بندوں میں شکر گزار تھوڑے ہیں۔‘‘
اور کامیاب وہ ہے جو اللہ کی نعمتیں چاہے تھوڑی ہوں یا زیادہ اس کا شکر ادا کرتا رہے۔