خود احتسابی


دوسروں کی کہانیاں چھوڑو
اپنے آگے بھی آئینہ رکھو

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ تَعْمَلُونَ “
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو چاہیے وہ دیکھ لے کہ وہ کل کے لیے کیا آگے بھیج رہا ہے اللہ سے ڈرو اللہ اس سے مکمل باخبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو” (الحشر 59 : 18)۔

انسان کے اندر بہت سی خوبیاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں لیکن سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خود احتسابی و خود شناسی سے بہرہ ور ہو اور اپنی خامیوں سے متعارف کرانے والوں کا دل کی وسعتوں سے سامنا بھی کر سکے اور ان کو دور بھی کرے- گناہوں کی اصل جڑ اور بنیاد ہمارے اپنے اندر کا شیطان ہے، انسان کے اندر دو قوتیں ہوتی ہیں، ایک انسانیت اور ایک شیطانیت کی، انسانیت شیطانیت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے، اس وقت تک جب تک انسان اس کو جگائے رکھے اور اس کی تجدید کرتا رہے. جب انسان اپنے اندر پنپنے والی انسانیت کو بیدار کرنا اور اس کی تجدید چھوڑ دے تب اس کے اندر کی شیطانیت غلبہ پانے لگتی ہے اور انسانیت مرنے لگتی ہے، انسانیت مرتی ہے تو اپنے ساتھ بہت سی چیزیں لے جاتی ہے جن میں سرفہرست حیا آتی ہے. تب انسان کو اس کے برے افعال بھی اچھے لگنے لگتے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے سب اچھا ہے-

خود احتسابی

وقتا فوقتا اپنے اندر انسانیت کی پرورش کرتے رہیں، اور اس کی پرورش کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں، ان کی خوشی کو اپنی خوشی جانیں بلکہ ان کی خوشی کے اسباب پیدا کریں، ان کے دکھ کا مداوا کریں. جب آپ یہ سب لوگوں کے لیے کریں گے تو یہی سب کچھ لوگ آپ کے لیے بھی کریں گے. شیطانیت کو نیست و نابود کرنے کے لیے ہمیں خود احتسابی و خود شناسی کاعمل جاری رکھنا چاہیے-

ایک شخص یونس بن عبید کے پاس آیا اور کہا کہ “تم یونس بن عبید ہو؟ کہا جی ہاں، اس نے کہا: اللہ کا شکر ہے تجھے دیکھنے سے پہلے مجھے موت نہیں آئی۔ انہوں نے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟ اس شخص نے کہا: میں ایک مسئلہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ کہا: جو چاہو پوچھو ۔ اس شخص نے کہا پرہیزگاری کا مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہر پہلو سے اپنے آپ کا احتساب کرنا اور ہر مشکوک چیز سے دور رہنا ۔ اس شخص نے کہا کہ زہد کی غایت کے بارے میں بھی مجھے بتادو؟ کہا: راحت کو ترک کرنا”۔

الحسن رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ “اللہ اس بندے پر رحم کرے جو کسی کام کا ارادہ کرتے وقت سوچتا ہے کہ اگر اس میں اللہ کی رضاہو تو کر گزرتا ہے ورنہ اس سے باز رہتا ہے۔

ابن قدامہ نے منہاج القاصدین میں کہا ہے کہ “یاد رکھو تمہارا سب سے بڑ دشمن تمہارا اپنانفس ہےاس کی تخلیق ہی برائی کا حکم کرنے والے اور شر کی طرف مائل ہونے والے کے طور پر کی گئی ہے۔تمہیں اس کو سدھارنے اس کو پاک کرنے اور برائی سے دور رکھنے حکم دیا گیا ہے ۔تم اس کو اپنے رب کی عبادت کے لیے سخت زنجیروں میں قید کرو۔ اگر تم نے اس کو ڈھیلا چھوڑ دیا تو پھر وہ سرکش اور سرپھرا بن جائے گاجس پر تم پھر قابو نہیں پاسکو گے۔

Doosron Ki Kahaniyan Choro
Apnay Agay Bhi Aaena Rakho


اپنا تبصرہ بھیجیں