اللہ اکبر
وہ جو چاہے تو کیا نہیں ممکن
وہ نہ چاہے تو کیا کرے کوئی؟
ایک تیری چاہت ہے…. اور ایک میری چاہت ہے
مگر ہوگا وہی…. جو میری چاہت ہے
اگر تو نے خود کو سپرد کردیا اُس کے…. جو میری چاہت ہے
تو میں بخش دوں گا تجھ کو…. جو تیری چاہت ہے
اور اگر تونے نافرمانی کی اُس کی…. جو میری چاہت ہے
تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اُس میں…. جو تیری چاہت ہے
اور پھر ہوگا وہی…. جو میری چاہت ہے
ایسا ہی ہوتا ہے…. حرف بہ حرف…ایسے ہی ہوتا ہے- اس فرق کو اور دنیا کے مزاج کو دیکھ کر الفاظ پہ غور کروں تو کچھ ایسا ہے کہ ”پس منظر پر ضد ”یقین کامل“ ہے اور منظر پر یقین کامل ”ضد“ ہے- حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یقین کامل کے حوالے سے جب نمرودنے اُنہیں آگ میں پھینکنے کا حکم دیا تھا تو نمرود کو یقین تھا کہ آگ ابراہیمؑ کو جلا ڈالے گی-اور حضرت ابراہیم کو ”ضد“ تھی کہ اس آگ میں جلانے کی تاثیر رکھنے والا کوئی اور ہے- نمرود کو فقط آگ پر یقین تھا اور ابراہیم کو آگ میں تاثیر رکھنے والے پر یقین تھا-حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یقین یہ نہیں تھا کہ یہ آگ کے شعلے پھولوں کی طرح مہکیں گے، حضرت ابراہیم کوآگ پر نہیں آگ میں تاثیر رکھنے والے پر ایمان تھا۔
.
خود کو سپرد کردو اُس کی چاہت کے وہ چاہے تو آگ کو گلزار کردے یا وہ چاہے تو جسم جلا کر راکھ کردے، جو”وہ“ چاہے-