جو کھلی کھلی تھی عداوتیں، مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے ، مجھے کھا گئے
یہ جو ننگ تھے ، یہ جو نام تھے ، مجھے کھا گئے
یہ خیالِ پختہ جو خام تھے ، مجھے کھا گئے
کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی
وہی زاویے کہ جو عام تھے ، مجھے کھا گئے
میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں
یہ جو لوگ محوِ کلام تھے ، مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جُڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے ، مجھے کھا گئے
یہ عیاں جو آبِ حیات ہے ، اِسے کیا کروں
کہ نہاں جو زہر کے جام تھے ، مجھے کھا گئے
وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے ، مجھے کھا گئے
میں وہ شعلہ تھا جسے دام سے تو ضر ر نہ تھا
پہ جو وسوسے تہہِ دام تھے ، مجھے کھا گئے
جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں مجھے راس تھیں
یہ جو زہر خند سلام تھے ، مجھے کھا گئے
خورشید رضوی