الحَمْد للہ
اللہ, مجاز کے ذریعے خواہش پیدا کرواتا ہے، انا کے ذریعے ‘میں’ کھڑی کرواتا ہے، آزمائش کے ذریعے پرکھتا ہے، انسان اپنی جلد بازی، ناشکرے پن، بے صبری کی بناء پر اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے، رضا کے احساس سے جھکنا سکھاتا ہے، جبکہ وفا کے ذریعے اللہ راضی برضا رہنا سکھاتا ہے، اور جب اللہ نے اپنی محبت اپنی ضرورت کا احساس دلانا ہو تو مجاز کو دور کروا کر خلاء پیدا کر دیتا ہے۔ ارض وسما میں جو کچھ ہے وہ محوِذکر ہے۔
کائناتِ ارض و سماء میں اللہ تعالیٰ کے علم اور مشیت کے بغیر کوئی امور انجام نہیں پاتا۔ ایک معمولی پتہ نہیں گرتا مگر اس کے علم میں ہوتا ہے۔ انسان اگلے لمحے کیا کرنے والا ہے؟ اس کی خبر االلہ تعالیٰ کو ازل سے ہے، اسی علمِ الٰہی کا نام تقدیر ہے۔ اللہ کے علم نے انسان کو فعل پر مجبور نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اوامر اور نواہی کے احکام جاری فرما کر انسان کو اختیار دیا ہے کہ خیر کو اپنا لے یا شر کو، ایمان لائے یا کفر کرے۔ ارشاد ہے:
وَقُلِ الْحَقُّ مِن رَّبِّكُمْ فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ. -الْكَهْف، 18: 29
اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔
اور یاد کرو ہمارے بندوں میں ابراھیم اور اسحاق اور یعقوب قدرت اور علم والوں کو بیشک ہم نے انھیں ایک کھری بات سے امتیاز بخشا کہ وہ اس گھر کی یاد ہے اور بیشک وہ ہمارے نزدیک چنے ہوئے پسندیدہ ہیں- سورہ ص – ٣٨ — آیات # ٤٥ – ٤٦ – ٤٧
رَبُّ الۡمَشۡرِقَیۡنِ وَ رَبُّ الۡمَغۡرِبَیۡنِ ﴿ۚ۱۷﴾
وہ رب ہے دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا ۔