چغلی


آج کل لوگ دعاؤں میں کم اور
چغلیوں میں زیادہ یاد رکھتے ہیں

چغلی

افسوس ! آج ہمارے معاشرے میں چغلی بہت عام ہے۔بدقسمتی سے بعض لوگوں میں یہ مرض اتنی ترقی پا چکا ہوتا ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود اس کا علاج نہیں ہوپاتا۔ اس قسم کے لوگ جب تک اپنی لگائی ہوئی آگ سے کسی کا نشیمن جلتے ہوئے نہ دیکھ لیں انہیں کسی کروٹ چین نہیں آتا اورنہ ہی یہ ایک معرکہ سر کرنے کے بعد دوسرے میدان کی طرف بڑھ جانے میں تاخیر کرتے ہیں۔

حضرتِ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رحمتِ عالم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمایا:

”غیبت اورچغلی ایمان کو اس طرح قطع کر دیتی ہیں جیسے چرواہا درخت کو کاٹ دیتاہے۔
(الترغیب والترہیب ، کتاب الادب ، رقم الحدیث ۲۸،ج۳،ص۳۳۲)

ایسی خواتین بھی ہیں جو تقریباً سارا دن عبادت کرتی تھیں۔ نماز اشراق، نماز اوابین اور نوافل بھی کثرت سے پڑھتی تھیں، تسبیحات کرتی تھیں، قرآن مجید کے کئی پارے روز تلاوت کرتیں، درود پاک پڑھتیں۔ اگر ان کی عبادت کا حساب لگایا جائے تو ایسی خواتین یقینا ولی اللہ بنائی جاتیں مگر میں ساتھ یہ بھی دیکھتا تھا کہ جب ساری عبادات و تلاوت اور ذکرو اذکار سے فارغ ہوتیں اور آپس میں بیٹھ جاتیں تو پھر بس کسی دوسری عورت کا ذکر کرکے اس کی غیبت شروع کردیتیں۔ جیسے عبادت کی کوئی حد نہیں ہوتی تھی ایسے ہی جب فارغ ہوکر بیٹھ کر غیبت کرنا شروع کرتیں تو اس کا بھی کوئی حساب نہیں ہوتا تھا۔

قدوۃ الاولیاء حضرت شیخ سیدنا طاہر علائوالدین القادری رحمۃ اللہ علیہ بہت سے لوگوں کا ایسا حال مجھے بتاتے تھے کہ لوگ اللہ کے دین کی اتنی خدمت کرتے ہیں کہ سارا دن روکھی سوکھی پر گزارتے ہیں۔ مسجدوں میں پنجگانہ نمازوں کی امامت کرواتے ہیں۔ قرآن و حدیث کا درس دیتے ہیں، عوام الناس کو راہ ہدایت دیتے ہیں۔ الغرض اتنی خدمت دین کرتے ہیں ان میں اگر ایک خرابی حسد نہ ہو تو یہ سارے علماء اولیاء بن جائیں مگر سارا کچھ کرکے دوسرے کو برداشت نہیں کرتے۔ خودپسندی، چغلی، حسد، تکبر یہ ساری نیکیوں کو برباد کردیتا ہے۔

اب بتائیں کتنی باتیں ایک دوسرے کے بارے میں ہم لوگ کرتے ہیں جب کسی کو یاد کرتے ہیں تو بس برائی ہی کرتے ہیں کہ فلاں مجھے اچھا نہیں جانتی، فلاں ایسا سلوک کرتی ہے۔ میرے ساتھ وغیرہ وغیرہ۔ کوئی ایک آدھ ایسا واقعہ ہوگا جو آپ نے خود دیکھا یا سنا ہوگا ورنہ زیادہ تر ایک دوسرے سے شیئر کرتی ہیں یا اندازہ کرتی ہیں تو وہ بھی حقیقت نہیں۔ شیئر کیا وہ بھی حقیقت نہیں۔ اس طرح اس الزام کا گناہ بھی سر آیا۔ اگر حقیقت بھی تھی تو آپ سے تو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہی نہیں کہ آپ تبصرہ کریں یا اس کی بات کا جواب دیں۔ نہ آپ سے قبر، قیامت اور دنیا میں بھی پوچھا جانا ہے۔ لہذا آپ جتنا زبان کھولیں گی دوسرے کے بارے میں تو گناہ ہی نکلے گا۔

Aaj Kal Log Duaon Me Kam Aur
Chugliyon Me Zyada Yad Rkhtay Hen


اپنا تبصرہ بھیجیں