یہ جو چھوٹے ہوتے ہیں نا
دکان پر، ہوٹل پر، ورکشاپ پر
دراصل یہ بچے اپنے اپنے گھر کے بڑے ہوتے ہیں
آج میرے کانوں میں ایک کم عمر بچے کی آواز پڑی۔ وہ کچھ بیچ رہا تھا ۔وہ آواز لگاتا اور اچانک کھیلنے میں مشغول ہو جاتا ،پھر اچانک آواز لگانے لگتا ۔میں نے جب اس کی طرف دیکھا تو اس کی طرف دیکھتا ہی رہا ۔ایسا محسوس ہوا کہ اس کی سوالیہ نظریں مجھ سے کچھ کہہ رہی ہوں۔ میں نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور پوچھا کہ یہ کام کب سے کر رہے ہو؟ 3 سال ہو گئے ہیں اس کام کو کرتے ہوئے اس نے کہا اور ایک لمحے کے لئے خاموش ہو گیا ۔میں نے کہا پڑھتے نہیں کیا ؟اس نے مصنوعی مسکراہٹ دے کر کہا بہن بھائیوں میں بڑا ہوں کما کر باقی بہن بھائیوں کو پڑھاتا ہوں۔ یہ بات کہہ کر وہ فخر سے میری طرف دیکھنے لگا۔ اس کی یہ بات سن میرا دل اس کو داد دینے کا کیا اور میں دل ہی دل میں کہنے لگا کہ واقعی تم گھر میں سب سے بڑے ہو۔جس نےبہن بھائیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنی خواہشات کو داؤ پر لگا دیا ہے ۔ مجھے اس کی باتیں سن کے لگا کہ شاید وہ صدیوں سے انتظار میں تھا کہ کوئی ہو جس سے میں اپنی دل کی باتیں کر سکوں ۔ وہ اپنی باتیں سنانے میں مصر وف تھا اور میں حیرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھے جارہا تھا ۔ وہ اپنی باتیں پوری کر کے چلا گیا ۔ لیکن جاتے جاتے ایک سوال چھوڑ گیا کہ
کیا میں کوئی خواہش نہیں رکھتا ؟ میں اس کی باتوں سے باہر نکلا تو سوچا اس میں اس کا کیا قصور ہے ؟ کیا یہ ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہو گیا ہے جہاں ہر ایک اپنا پیٹ بھرنے میں لگا ہے۔ قصور اس میں سب سے پہلے ہمارا ہے جو ایسے حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں.
معصوم بچوں سے چھوٹی عمر میں اس کی استطاعت سے زیادہ کام لینا کہاں کا انصاف ہے۔اور غریب آدمی مرے کیا نہ کرے گھر کا دیا جلانے کے لئے کچھ تو کرے گا۔ کتنے غریب گھرانے ہیں جو رات کا کھانا کھائے بغیر سوتے ہیں ۔اس بات کا کسی کو نہیں پتہ کیونکہ ہر کوئی اپنی اپنی دھن میں مگن ہے۔ کاش حضرت عمر رضی اللہ عنہ والا زمانہ لوٹ آئے کوئی حکمران ان جیسا آئے جو اپنی عوام کے ساتھ پورا تعاون کرے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ” کہ اگر میرے دورے حکومت میں اگردریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو قیامت کے روز اللہ کے حضور میں جوبداہ ہوں گا ”
جانور تو دور کی بات یہاں توانسانوں کے انسان مر رہے ہیں لیکن حکمرانوں کو پرواہ ہی نہیں۔ جیسے جیسے سال گزرتے جارہے ہیں ویسے ویسے کام کرنے والے بچوں کی تعداد بجائے کم ہونے کے زیادہ ہوتی جارہی ہے ۔حکومت اور دوسرے ادارے جو اس کی روک تھام میں سرگرم ہیں ،ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن اس کے باوجود غربت اور چائلڈ لیبر پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا۔حکومت اگر اپنے ذاتی بجٹ کا تھوڑا سا حصہ بھی اپنے ملک کی غریب عوام پر لگانا شروع کر دے تو ایک دن یہ ملک غربت کی دلدل سے نکل جائے گا اور چائلڈ لیبر پر قابو پایا جائے گا-
میرے حصے میں نہ کتابیں نہ کھلونے آئے
خواہش رزق نے چھینا میرا بچپن مجھ سے
سنورتے ہیں وہ دیکھ کر آئینہ ۔ ۔ ۔!!!!!!!!!!!!
سنور جائیں تو آئینہ دیکھتا ہے انہیں ۔ ۔ ۔ !!!