اس دنیاۓ فانی سے جو منہ موڑ گیا ہے


اس دنیاۓ فانی سے جو منہ موڑ گیا ہے
برسوں کے جو رشتے تھے سبھی توڑ گیا ہے

ہے کھوج فرشتوں کو کہ کیا ساتھ ہے لایا؟
اور فکر عزیزوں کو ہے، کیا چھوڑ گیا ہے؟

کیا چھوڑ گیا ہے

یہ دنیاوی زندگی ایک کھیل اور تماشے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کہ جس طرح کھیل تماشے میں لگ کر ایک بچہ اپنے اصل مقصد کو بھول جاتا ہے، اسی طرح ابنائے دنیا دنیا کی چمک دمک اور اس کی ظاہری چکا چوند میں کھو کر اور اس کے مفادات سمیٹنے میں لگ کر آخرت کی اپنی اصل اور حقیقی منزل کو بھول گئے۔ اور اس دنیائے دوں کی عارضی اور فانی لذتوں میں منہمک ہو کر انہوں نے اپنے پورے سرمایہ حیات کو اسی میں تج دیا۔ اور اسی کے کمانے بنانے اور جوڑنے بڑھانے کو انہوں نے اصل مقصد حیات اور نصب العین بنا لیا جو کہ سب سے بڑا نقصان اور ناقابل تلافی خسارہ ہے۔ جبکہ اصل، حقیقی اور ابدی زندگی تو آخرت کی زندگی ہی ہے۔

سو اس سے منہ موڑ کر دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی کو اصل مقصد بنا لینا خساروں کا خسارہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے – والعیاذ باللہ العظیم – مگر ابنائے دنیا ہیں کہ اس سب کے باوجود اندھے اور بہرے بن کر اور آخرت کی اصل اور حقیقی زندگی کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر اسی دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور وہ اسی کو سب کچھ سمجھے بیٹھے ہیں – الا ماشاء اللہ – سو اس سے مومن صادق کی عظمت شان کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس دنیا کو ابنائے دنیا سب کچھ سمجھتے اور اس کو انہوں نے اپنا قبلہ اور مقصود حیات بنا رکھا ہے اور وہ دن رات اسی کے بنانے سنوارنے اور جوڑنے جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ مومن صادق کے نزدیک قرآن وسنت کی نصوص صریحہ کے مطابق ایک کھیل اور تماشہ کے سوا کچھ نہیں – فَیَا لعَظْمَۃ الایْمَانِ وَالْیَقِیْنِ – اَللّٰہُمَّ فَزِدْنَا مِنْہُ وَثَبِّتْنَا عَلَیْہِ بِمَحْضِ مَنِّکَ وَ کَرَمِکَ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالِْاکْرَامِ –

” کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟ ” کہ لہو و لعب کی اس عارضی اور فانی زندگی کو آخرت کی اس ابدی حقیقی اور دائمی زندگی پر ترجیح دیتے ہو جو کہ سراسر خسارے کا سودا ہے؟ – والعیاذ باللہ العظیم – سو عقل و خرد کا تقاضا یہ ہے کہ انسان آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی کو اصل مقصد اور نصب العین بنائے اور دنیا کی اس عارضی فرصت کو اسی کے بنانے میں صرف کرے کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی اور اس کی کمائی کیلئے قدرت کی بخشی ہوئی ایک فرصت ہے – وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ- اور آخرت اس دنیا سے کہیں بڑھ کر بہتر بھی ہے اور ابدی و دائمی بھی۔ تو پھر ان لوگوں کی عقلوں کو آخر کیا ہوگیا جو آخرت کی اس ابدی اور حقیقی زندگی کو بھول کر اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر اسی دنیاۓ فانی پر ریجھ گئے اور وہ اسی کے لئے جینے اور مرنے لگے۔ پھر یہاں پر آخرت سے سرفرازی کا طریقہ بھی بتا دیا گیا کہ وہ ہے تقویٰ و پرہیزگاری اور خوف خداوندی۔ پس ہمیشہ اسی کو اپنانے کی فکر و کوشش ہونی چاہیے – وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْق –

Is Duniya e Fani Say Jo Munh Mor Gya Hay
Brson Kay Jo Rishtay Thay Sbhi Tor Gya Hay
Hay Khoj Frishton Ko Keh Kya Sath Hay Laya
Aur Fikr Azizon Ko Hay, Kya Chor Gya Hay


اپنا تبصرہ بھیجیں