دوسروں کو چھوٹا ثابت نہ کریں


خود کو بڑا ثابت کرنے کے لیے
دوسروں کو چھوٹا ثابت نہ کریں
محمد جمیل اختر

نِیچا دِکھانا

خود کو بڑا ثابت کرنے کے لیےدوسروں کو چھوٹا ثابت نہ کریں

آج ہم عقل وشعور کی کئی منزلیں طے کر آئے ہیں۔ انسانی تہذیب و تمدن ، علم کی فراوانی مل کر ایک مہذب معاشرے کو تشکیل دیتی ہیں جس میں کسی کی کردارکشی کرنا بغیر کسی ثبوت کے انتہائی معیوب حرکت سمجھی جاتی ہے۔ قرآن ہمیں جو بات سمجھاتا ہے وہ یہ ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے بلاوجہ کسی پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے یا دوسرے لفظوں میں بہتان لگایا جا رہا ہے تو اس فعل سے لاتعلقی اختیار کی جائے بلکہ متاثرہ شخص کے بارے میں اچھا گمان رکھتے ہوئے اسکا دفاع کیا جائے۔

اسکی تفصیل ہمیں سورۃ نور میں ملتی ہے کہ بغیر گواہوں کے کسی پر الزام لگانا سخت گناہ کے زمرے میں آتا ہے اور اسکی سزا بھی بہت کڑی ہے لیکن ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنا دیا جاتا ہے اس سے نہ صرف متعلقہ افراد کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ باقی لوگوں کو بھی کوئی اچھا پیغام نہیں جاتا، برائی کی ترویج ہوتی ہے اور زندگی کے اچھے پہلو کہیں دب کر رہ جاتے ہیں اگر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دو چیزیں ایسی ہیں جو معاشرے میں فساد کا موجب بنتی ہیں۔ پہلے ہم لوگوں کی ٹوہ لیتے ہیں انکی برائیاں تلاش کرتے ہیں پھر انکی پیٹھ پیچھے ان پر سیر حاصل تبصرے کرتے ہیں اور جب غیبت سے تسلی نہیں ہوتی تو بات بہتان تک جا پہنچتی ہے۔

اس سارے عمل میں اتنے منفی جذبات شامل ہو جاتے ہیں کہ چھوٹا سا معاملہ بہت بڑے فساد کی شکل اختیار کر جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی گھر ٹوٹتے ہیں، کئی زندگیاں تباہ ہوتی ہیں اور یہ سب کرنے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہو تاکہ وہ کس آگ سے کھیل رہے تھے، یہ آگ کئی گھر جلا سکتی ہے۔ انہیں نہیں پرواہ کہ بغیر ثبوت اورگواہ کے کسی کی عزت اچھالنا قذف کی مد میں آتا ہے اور قذف کی سزا اسلامی ریاست میں اسی (80) کوڑے ہیں اسکے علاوہ ساری عمر کیلئے ان پر جھوٹے کا لیبل لگ جائیگا۔ اب اس کی شہادت بھی معتبر نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس طرح کرنیوالوں کی اپنی عزت دوسروں کی نظروں میں کیا ہونی چاہیے اور میرے رب نے قرآن میں انہیں کس درجے پر رکھا ہے۔ ہمارے پیارے نبیؐ کی تعلیمات میں ہمیں سکھایا گیا کہ دوسروں کا پردہ رکھو، اللہ تمہارا پردہ رکھے گا۔

Khud Ko Bara Sabit Karnay K Liay
Dosroon Ko Choota Sabit Na Karain
Muhammad Jameel Akhtar


اپنا تبصرہ بھیجیں