سب نے پوچھا بہو جہیز میں کیا لائی ہو
کسی نے نہ پوچھا بیٹی کیا کیا چھوڑ آئی ہو
جہیز کا لین دین اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ہم سبھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ معاشرے کی بدترین برائی ہے لیکن پھر بھی یہ ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ ہم اپناتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ اس کے شکنجے میں جکڑے زندگی کو مشکل سے مشکل بناتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے خلاف آواز نہیں بلند کرتے۔
جواز دیتے ہیں !
1۔ قرآن و حدیث میں جہیز لینے سے کہاں منع کیا گیا ہے ؟
2۔ لوگ اپنی بیٹی کو خوشی سے دیتے ہیں اور اس صورت میں لینے میں کیا برائی ہے ؟
3۔جہیز دراصل تحفہ ہے۔تحفہ لینا سنت ہے۔
4۔شادی کے دن کھانا کھلانا مہمان نوازی ہے اور یہ جائز ہے۔
5۔ اس رسم کو مٹانا ناممکن ہے۔ اور جب سبھی ایسا کر رہے یں۔ جہیز لے رہے ہیں اور ہم بھی لے رہے ہیں جہیز تو کون سا برا کام کر رہے ہیں۔
یہ محض ان کی کم علمی اور جہالت ہے کہ قرآن میں اس بارے میں احکامات نہیں ملتے۔ وہ قرآن جو زندگی کے ہر مرحلے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے وہاں عائلی زندگی اور اس کے احکامات نہ ملتے ہوں بات غورو فکر کی ہے اور سب سے بڑھ کررسالت ماٰب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا نمونہ ہمارے سامنے ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ لڑکی کے باپ کی مشکل یہ کہہ کر آسان کر دی جائے کہ آئیں چلیں سادگی سے نکاح کر لیتے ہیں۔ اس سے بڑی مدد اور کیا ہو سکتی ہے لیکن وہ یہ جانتے ہیں چاہے مجبوری سے یا معاشرے میں عزت بنانے کی خاطر جو کچھ وہ اپنی بیٹی کو دیں گے وہ بالاخر ان کی امانت ہے کیونکہ وہ بیٹے کے باپ ہیں۔
کوئی ان کی ذہنی کیفیت اور کرب کا اندازہ نہیں لگا سکتا جو کبھی الفاظ کی شکل میں طنز اور نشتر کی صورت ان کے دل پر لگائے جاتے ہیں تو کبھی ہر سمت سے اٹھتے سوال اور چبھتی نظریں انہیں اپنے آپ کو مجرم سمجھنے پر مجبور کر دیتی ہیں اسی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ موت کے دامن میں پناہ ڈھونڈ لیتی ہیں۔