جتنا لہجے میں صبر ہوگا اتنا دعا میں اثر ہوگا


جتنا لہجے میں صبر ہوگا
اتنا دعا میں اثر ہوگا

دعا میں اثر

صبر کا معنی برداشت سے کام لینے۔خود کو کسی بات سے روکنے اور باز رکھنے کے ہیں۔ جبکہ شکر کے معانی عربی لغت میں اظہارِ احسان مندی، جذبہ سپاس گزاری کے ہیں۔صبر کے عمل میں ارادے کی مضبوطی اور عزم کی پختگی ضروری ہے۔ بے کسی، مجبوری اور لاچاری کی حالت میں کچھ نہ کرسکنا اور روکر کسی تکلیف و مصیبت کو برداشت کرلینا ہرگز صبر نہیں ہے بلکہ صبر کا تانا بانا استقلال و ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صبر کا مطالبہ اس لیے کیا ہے کہ حق اس دنیا میں موجود رہے، اگر حق پررہنے والے لوگ معدوم ہو جائیں تو پھر حق کہاں سے ملے گا۔اس طرح ایک فرد کی زندگی میں بھی حق کی بقا اسی میں ہے کہ وہ حق پر قائم رہنے کے لیے ثابت قدمی دکھائے۔آثارصحابہ میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ

’لا ایمان لہ لمن لا صبر لہ‘،
’’اس کا ایمان ہی نہیں جس کے پاس صبر نہیں۔‘‘

یعنی جو آدمی صبر نہیں کرسکتا اس کا ایمان جاتا رہے گا۔ وہ صبر کی صفت نہ ہونے کے سبب سے اس بات سے محروم ہوتا ہے کہ وہ مشکل گھڑی میں ایمان کو قائم رکھ سکے ، وہ تھڑ دلوں کی طرح پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہوتا رہتا ہے۔ایسے آدمی کی تصویر قرآن نے یوں کھینچی ہے:

فَاَمَّا الاِْنْسَانُ اِذَا مَاابْتَلٰہُ رَبُّہٗ، فَاَکْرَمَہٗوَ نَعَّمَہٗ، فَیَقُوْلُ: رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗفَیَقُوْلُ: رَبِّیْٓ اَہَانَنِ. (الفجر۸۹: ۱۵۔۱۶)
’’پر اس انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا خدا امتحان کرتا پھر اسے عزت و نعمت بخشتا ہے تو وہ خیال کرتا ہے کہ میرے رب نے میری شان بڑھائی۔ اور جب وہ اسے جانچتا پھر (اس غرض سے) رزق میں تنگی کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر ڈالا۔‘‘

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا، اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا، وَّ اِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا.(المعارج۷۰: ۱۹۔۲۱)
’’انسان کی گھٹی میں بے صبری پڑی ہے ، جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ گھبرانے لگ جاتا ہے اور جب فراخی حاصل ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے۔‘‘

أُوْلَئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَؤُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ القصص، 28 : 54
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور اس عطا میں سے جو ہم نے انہیں بخشی خرچ کرتے ہیں۔

حضرت مغیرہ بن عامر سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الشکر نصف الايمان والصبر نصف الايمان و اليقين الايمان کله.
’’صبر نصف ایمان ہے، اور شکر نصف ایمان اور یقین کامل ایمان ہے۔‘‘

Jitna Lehjay Mein Sabr Ho Ga
Utna Dua Mein Asr Ho Ga


اپنا تبصرہ بھیجیں