دنیا اور آخرت


دنیا نصیب سے ملتی ہے
اور آخرت محنت سے

دنیا کی زندگی ایک کھیل کود سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا :
”دنیا سے میرا بھلا کیا ناطہ! میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی مسافر کسی درخت کی چھاؤں میں گرمیوں کی کوئی دوپہر گزارنے بیٹھ جائے ۔ وہ کوئی پل آرام کر ے گا تو پھر اٹھ کر چل دے گا“

ترمذی میں سہل بن عبداللہ کی روایت میں رسول اللہ فرماتے ہیں :
”یہ دنیا اللہ کی نگاہ میں مچھر کے پر برابر بھی وزن رکھتی تو کافرکوا س دنیا سے وہ پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہونے دیتا“

صحیح مسلم میں مستورد بن شداد کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
”دنیا آخرت کے مقابلے میں بس اتنی ہے جتنا کوئی شخص بھرے سمندر میں انگلی ڈال کر دیکھے کہ اس کی انگلی نے سمندر میں کیا کمی کی “ تب آپ نے اپنی انگشت شہادت کی جانب اشارہ کیا ۔

دنیا اور آخرت

دنیا اور آخرت کے اعتبار سے کائنات کی تقسیم اسلامی تصور کائنات کا ایک اور موضوع ہے۔ غیب و شہادت کے عنوان سے پہلے ہم جو کچھ عرض کر چکے ہیں اس کا تعلق ایسی دنیا سے تھا جو ہماری اس دنیا پر محیط ہے اور ہماری اس دنیا کو سنوارتا ہے۔ اگرچہ ایک اعتبار سے عالم آخرت عالم غیب ہے اور یہ دنیا عالم شہادت لیکن یہ وہ دنیا ہے جس میں ہمیں اس موجودہ دنیا کے بعد قدم رکھنا ہے لہٰذا اس کی وضاحت ایک علیحدہ عنوان کے تحت ضروری ہے۔ عالم غیب وہ دنیا ہے جہاں سے ہم آئے ہیں اور عالم آخرت وہ منزل ہے جہاں ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ حضرت علیؑ کے اس جملے کا بھی یہی معنی ہے:

رحم اللّٰہ امرءً اعلم من این و فی این والی این
”اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جس نے یہ جان لیا کہ وہ کہاں سے آیا ہے؟ کس منزل پر ہے؟ اور اسے کہاں جانا ہے؟

”جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا او ر جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔“(سورہ : ا لنحل ۔ آیت نمبر:۹۶)

ایک مرتبہ میں دربارِ رسالت میں حاضرِ خدمت ہوا تو دیکھا کہ حضور ﷺ ایک بوریے پر لیٹے ہوئے ہیں، جسمِ اطہر پر بوریے کے نشانات بھی ابھر آئے ہیں اور سرہانے ایک چمڑے کا تکیہ ہے جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے۔ میں نے دیکھا کہ گھر کا کل سامان یہ تھا۔ تین چمڑے بغیر دباغت دیے ہوئے اور ایک مٹھی جوَ۔ اس کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ یہ دیکھ کر میں رو دیا، حضورﷺ نے فرمایا کہ کیوں رو رہے ہو۔ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ کیوں نہ روؤں کہ یہ بوریے کے نشانات آپ کے بدنِ مبارک پر پڑے ہیں اور گھر کی کل کائنات یہ ہے جو میرے سامنے ہے۔ پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ دعا کیجیے کہ آپ کی امت پر بھی وسعت ہو۔ یہ روم و فارس بے دین ہونے کے باوجود کہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ ان پر یہ وسعت، یہ قیصر و کسری تو باغوں اور نہروں کے درمیان ہوں اور آپ اللہ کے رسول اور اس پر یہ حالت، نبی اکرم ﷺ تکیہ لگائے ہوئے لیٹے تھے۔میری بات سن کر بیٹھ گئے۔ اور فرمایا ” عمر! کیا اب تک اس بات کے اندر شک میں پڑے ہوئے ہو۔ سنو! آخرت کی وسعت دنیا کی وسعت سے بہتر ہے۔ ان کفار کو اچھی چیزیں دنیا میں مل گئیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔حضرت عمر نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ میرے لیے استغفار فرمائیں کہ واقعی میں نے غلطی کی۔

Duniya Naseeb Say Milti Hay
Aur Akhrt Mehnt Say


اپنا تبصرہ بھیجیں