دیکھی جو گھر کی غربت تو چپکے سے مر گئی
ایک بیٹی اپنے باپ پہ احسان کر گئی
آج کتنی جوانیاں گھر بیٹھے مرجھا چکی ہیں؟ آج کتنی نوجوان لڑتیاں اپنے ہاتھوں سے خود کو تباہ کر رہی ہیں؟ آج کتنی نوجوان لڑتیاں غربت کی وجہ سے مر رہی ہیں؟ خود کو تباہ کر رہی ہیں؟ جہیز کی رسم ایک ناسور کی طرح معاشرے میں پھیل چکی ہیں جس کے باعث دیگر برائیاں ، خود کشی، چوری، طلاق، پرتشد اموات، دھوکہ دہی اور دیگرکئی سماجی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ والدین قرض حاصل کر کہ اپنی لڑکیوں کو بیاہتے ہیں اورپھر ان کی زندگی قرض اتارنے میں گزر جاتی ہے- اگر جہیز کی لعنت کو چھوڑ کر نکاح کو آسان اور سستا نہ بنایا گیا تو ہر طرف بے راہ روی کہ ایسا سیلاب آئے گا جو سب کچھ بہا کر لے جائے گا-
اے لوگو! تم اپنی غیرت کو کس بازار کی نظر کر آئے؟
انسانی شکل میں حیوانیت کا ننگا ناچ کیوں کر رہے ہو؟
آج ہمارے مسلمانوں میں جہیز کی لعنت کو گلے کا طوق بنا لیا ہے. صرف ظالمانہ رسموں کی فکر ہے۔ جہیز کے نام پر شادی بیاہ میں جو رسوم رائج ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ آج کل سب سے پہلی چیز جو دیکھی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ لڑکی کتنی دولت اپنے ساتھ لا سکتی ہے۔ حُسن و جمال ہی کی نہیں، دین و اخلاق کی بھی اس قدر توہین شاید ہی دنیا نے کبھی دیکھی ہو۔ دولت نے ہر اعلیٰ قدر کو شکست دے رکھی ہے- لڑکی کو ماں باپ اپنی محبت و شفقت میں رخصت ہوتے وقت جو کچھ دیتے ہیں وہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے لیکن جہیز کے نام پر لین دین غیر مسلموں کا طریقہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے جہیز ایک لعنت ہے اور ہم مسلمانوں نے اس لعنت کو تہذیب و تمدن سمجھ کر قبول کر لیا ہے اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس لعنت نے ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ ہوسِ زر اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لڑکی کی شکل و صورت، تعلیم و تربیت اور دین و اخلاق سب کچھ اس کے مقابلے میں پیچھے رہ گئے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سی لڑکیاں لمبی لمبی عمر تک اس لیے بیٹھی رہتی ہیں کہ بدقسمتی سے وہ ایسے ماں باپ کے گھر پیدا ہوگئیں جو ان کے لیے جہیز فراہم نہیں کر سکتے۔ ان میں کتنی بےزبان زندگی بھر کنواری رہ جاتی ہیں۔ کچھ نیک بخت صور تحال کی نزاکت کا احساس کر کے از خود شادی سے انکار کر دیتی ہیں اور کچھ خود کشی کو ترجیح دیتی ہیں تاکہ ان کے والدین ان کی شادی کی فکر سے آزاد ہو جائیں-
جو لڑکی جہیز کے بغیر شوہر کے گھر چلی جائے۔ اُس میں لاکھ خوبیاں سہی، اُس کی یہ غلطی معاف نہیں ہوسکتی کہ وہ خالی ہاتھ آئی ہے۔ اُسے اپنے اس ناکردہ جرم کاصرف اپنے شوہرکو ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کے ایک ایک فرد کو حساب دینا پڑتا ہے۔ اس کی تذلیل، طنز و تعریض اور مارپیٹ ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں شوہر سے علیحدگی بھی ہو سکتی ہے۔ اتنا ہی نہیں اس ’جرم‘ کی وجہ اسے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ جہیز کے لیے جان لینے کے واقعات اس قدر ہورہے ہیں کہ ان کی نوعیّت روزمرّہ کے حادثات کی ہوکر رہ گئی ہے۔ کبھی یہ سزا شوہرِ دیتا ہے، اگر اسے اس میں کوئی ہچکچاہٹ ہو تو خاندان کے دوسرے افراد اس خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔
جہیز کے مسائل و مصائب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عورت خودکشی کو بھی ترجیح دینے لگی ہے- خداہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی معصوم جانیں اس خونِ آشام جہیز کی نظر ہو چکی ہیں اور ابھی اور کتنی معصوم جانیں اس کا نشانہ بنیں گی۔اگر جہیز کی لعنت کا خاتمہ ہوجائے اور شادیاں سستی ہوجائیں تو کئی نوجوان بچیوں کے چہرے ان گنت خدشات سے پاک ہوجائیں گے اور غریب والدین ان داخلی زنجیروں اور فرسودہ رسموں کے طوق سے آزاد ہوکر اپنے فرائض کو ادا کر سکیں گے-