اک آس ہے ایسی بستی ہو
جہاں روٹی زہر سے سستی ہو
ہمارے ملک میں امیر ، امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور متوسط طبقہ اپنی سفید پوشی کو بچانے کی فکر میں مبتلا رہتا ہے۔ مگر غریب اور غربت کا ساتھ چولی دامن کا ہے جو چھوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔کئی ادوار آئے اور اُن ادواروں میں بڑے بڑے وعدے وعید بھی کئے گئے مگر تاحال وہ سب صرف وعدوں تک ہی محیط ہے۔ اس کے اثرات و ثمرات غریبوں تک نہیں پہنچ سکے- ریس کے میدان میں کسی نے پوچھا کہ یہ جو ریس ہو رہا ہے اس میں انعام کس بندے کو دیا جائے گا؟ جواب ملا، ظاہر ہے کہ جو سب سے آگے جا کرریس کا اختتام کرے گااسے ہی انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ سوال کرنے والے نے پھر کہا کہ جب آگے والا بھاگ رہا ہے تو پیچھے والے کیوں بھاگ رہے ہیں کیونکہ انعام تو آگے والے کو ملنا ہے۔ یہ دنیا میدان ہے ! اس میں امیر و غریب دونوں ہی ازل سے بھاگتے آ رہے ہیں، امیر صاحبان تو دنیا داری میں ہمیشہ سے ہی آگے رہے ہیں۔ مگر امیر اور غریب دونوں ہی عظیم ہستیاں کہلاتی ہیں۔
غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارف
امیرِ شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی
غریب پیسہ کمانے اور امیر پیسہ سنبھالنے میں مصروف ہے۔غریب دو وقت کی روٹی کے لئے چند سکے کمانے کی غرض سے رات دن مشغول ہے مشقت و مزدوری میں پیچھے نہیں ہٹتا کیونکہ اسے اپنے بچوں کے لئے روٹی کما کر لے جانا ہوتا ہے جبکہ امیر رات دن روپیہ پیسے کی افزائشِ نسل میں لگا ہوا ہے۔بچے دودھ کی جگہ پانی پر گزارا کرتے ہوئے ملیں گے، تین وقت کی روٹی کی جگہ ایک وقت پر گزارا کرتے ہوئے ملیں گے، سونے کے لئے آرام دہ بستر کے بدلے فرش اور ٹاٹ ہی دستیاب ہوگا۔ یہ ساری وجوہات چوری، قتل اور خودکشی باعث بنتی ہیں- غریب بیچارہ غربت سے تنگ آکر زہر کھانے کو ترجیح دیتا ہے