غلامی کی بدترین شکل وہ ہے
جب غلاموں کو اپنی زنجیروں سے پیار ہو جائے
ایسی غلامی کو ذہنی غلامی کہتے ہیں اورجسمانی غلامی اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی ذہنی غلامی ہوتی ہے جسمانی غلامی سے تو آزادی مل سکتی ہے لیکن ذہنی غلامی نسلیں برباد کر دیتی ہے۔ ذہنی غلامی ان رویوں کا باعث بنتی ہے جو مزید غلامی کا باعث بنتے ہیں علم سیاسیات کی رو سے قومی طاقت کو چند عوامل کے حاصل سے ناپا جاتا ہے جن میں جغرافیہ، فوجی طاقت، معاشی طاقت ، آبادی ، انڈسٹریل صلاحیت، قومی کردار اور حوصلہ وغیرہ شامل ہیں ان سب عوامل میں اہم ترین قومی کردار اور حوصلہ ہے قومی کردار ہی وہ اہم ترین سبب تھا جس سے قوموں کو عروج نصیب ہوا۔
جاپان ناگا ساکی اور ہیروشیما کی تباہی کی کچھ ہی سالوں بعد دنیا کی معاشی طاقت بن کر ابھرا۔ چین جو افیمیوں کا ملک کہلاتا تھا آج دنیا کی سپر پاور ہے۔ ایک کالم میں فیس بک پوسٹ کا حوالہ دیا تھا کہ “کچھ لوگ غلامی سے آزادی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور کچھ لوگ غلامی کی شرائط کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں”
قدیم داستانوں میں اجناس کی طرح بکتے ہوئے خدمت گزاروں کو ہم غلام گردانتے ہیں۔ پرانے عکس جو دماغ کے پانی پہ نمودار ہوتے ہیں ان کے مطابق غلام دن بھر کی جبری مشقت کے بعد شام کو کسی بڑی کوٹھری میں قطار در قطار منتقل ہوتے ہیں۔ ہاتھ باندھ کر ہر سلوک پہ سر خم کرتے ہیں۔ صبح ان کے لئے ایک کڑے دن کا پیغام لاتی ہے، جب دوبارہ وہ کھلے آسماں تلے آتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے ہاں رات نیند کے لئے کم اور عارضی موت کے لئے زیادہ آتی ہے۔
سلاطین کا دور اب نہیں رہا تو جکڑ بندیاں بھی شاید رفع ہو گئیں۔ مگر یہ غلامی کا پرانا لباس تھا، غلامی کا وجود آج بھی ہے۔ البتہ ڈھنگ اور پیراہن بدل گیا ہے گویا غلامی کے انداز بدل دیئے گئے۔ بیڑیاں اب بھی ہیں مگر نظر نہیں آتی ہیں۔ سوچ کو ابھی تک آزادی نہیں مل سکی، وہ سوچ جو پرندہ ہے مگر کسی سفاک صیاد کے پنجرے میں بند ہے۔ اس پنجرے کو وہ قسمت کہتا ہے۔ پنجرہ جتنا بھی وسیع ہو مگر اس کے گرد آہنی سلاخوں کا حلقہ موجود رہتا ہے، جس نے خوف کا روپ دھار کے ذات کو زنداں بنا رکھا ہے۔ ہم بظاہر آزاد ہیں لیکن پھر بھی غلام ہیں۔ ہمیں احترام کی بجائے تابعداری کا درس دیا گیا ہے اور تابعداری کا فیصلہ سماج نے کرنا ہے چاہے شعور اس فیصلے کی منطقی تردید بھی کرے۔