انسان کا مقدر اتنی بار بدلتا ہے
جتنی بار اللہ سے رجوع کرتا ہے
انسان کا مقدر اتنی بار بدلتا ہے جتنی بار اللہ سے رجوع کرتا ہے مطلب کہ “دعا”۔ دعا، عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی تو التجا اور پکار کے آتے ہیں۔ دعا اللہ کی عبادت ہے، دعا اللہ کے متّقی بندے اور انبیا ئے کرام علیہم السلام کے اوصافِ حمیدہ میں سے ایک ممتاز وصف ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَیْسَ شَیْءٌ أکْرَمَ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجّلَّ مِنَ الدُّعاء
دعا سے بڑھ کر اللہ تعالی کے یہاں کوئی چیز باعزت نہیں
سَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہ فَانَّہ یُحِبُّ أنْ یُسْأَلَ
اللہ سے اس کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اپنے سے مانگنے کو پسند کرتاہے
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّعَاءُ سِلاَحُ الْمُؤمِنِ وَعِمَادُ الدِّیْنِ وَنُوْرُ السَّمٰواتِ وَالأرْضِ
دعا موٴمن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کی روشنی ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُلْحِیْنَ فِی الدُّعَاءِ اللہ تعالی دعامیں بہت زیادہ تضرع اور خضوع وخشوع کرنے والے اور بہت زیادہ مانگنے والے کو پسند کرتاہے ۔
دعا عبادت ہے ، نجات کا ذریعہ ہے، لہٰذا جو بھی دعا سے اعراض کرے ، اللہ سے نہ مانگے اللہ ان سے ناراض ہوتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ انَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ لیکن اس کے برعکس جو خوب اللہ تعالی سے مانگے گا اس کے سامنے آہ و فغاں اور خشوع وخضوع کرے گا وہ اس دعا کی وجہ سے جنت میں داخل کیا جائے گا، جیسا کہ قرآن میں ہے : اور ان میں سے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوگا آپس میں پوچھتے ہوئے وہ کہیں گے بے شک ہم اس سے پہلے اپنے اہلِ خانہ میں ڈرتے تھے تو اللہ تعالی نے ہم احسان کیا اور گرم ہوا کے عذا ب سے بچالیا، بے شک وہ بہت ہی احسان کرنے والا اور رحم کرنے والاہے۔
خوشحالی اور بدحالی ہر حال میں اللہ تعالی سے مانگنا چاہیے ، اللہ تعالیٰ دونوں حالتوں میں یادکرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور اس کو نوازتا ہے ، اس کی مثال حضرت یونس علیہ السلام ہیں کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یادکرتے تھے ، اسی کی تسبیح وتحمید کیا کرتے تھے، انھیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل اعتماد تھا؛ چناں چہ جب مچھلی کے پیٹ میں بند ہوگئے، اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کو یادکیا:
لَاإلٰہَ إلّا أنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ
کوئی إلٰہ نہیں سوائے تیرے اور میں ظالموں میں سے ہوں
بس اللہ تعالی نے اس سے نکلنے کی سبیل پیداکردی اوراندھیروں کی گرفت سے نجات نصیب ہوئی
فَلَوْلاَ أنَّہ کَانَ مشنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِيْ بَطْنِہ الیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
کہ اگر وہ تسبیح کرنے والے نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے اور وہی ان کے لیے قبر بن جاتی
–