حسّاس ہونا موت ہے


اس قدر حسّاس ہونا موت ہے انسان کی
زندہ رہنے کے لیۓ کچھ بے حسی درکار ہے

حسّاس ہونا موت ہے

بے حسی کے جس عذاب سے آج ہم دوچار ہیں۔ وہ ایک بہت بڑا سماجی اور تہذیبی نقصان ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے اور بے حسی کے مظاہرے دیکھیے۔لوگ اتنے بے حس ہیں کہ کوئی کسی کے کام نہیں آتا- اور ایک دوسرے کو دیکھ کے سبھی بے حسی اختیار کر رہے ہیں اور اس دنیا میں رہنے کے لیئے بھیسب کی طرح بن رہے ہیں اور بے حسی اختیارکر رہے ہیں- صاحب دل ہیں تو اس پر دکھ بھی ہو گا اور افسوس بھی۔ ایک عجیب طرح کی نفسا نفسی سوسائٹی میں در آئی ہے۔ اب تو مطلب کے بغیر کوئی کسی کو فون بھی نہیں کرتا۔ اب کسی کے کام آنا خواب و خیال ہو گیا ہے۔ یہ بے حسی ہمیں کہاں لے جائے گی؟ سوچ کر خوف آتا ہے۔ بے حسی کا تکلیف دہ نظارہ وہ بھی ہے جو لوگ کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن آنکھ بچا کر نکل جاتے ہیں۔ اس بیمار باپ کے بارے میں سوچیے جو اپنے اکلوتے بیٹے کا چہرہ دیکھنے کی حسرت میں قبر میں جا سویا۔ بیٹے نے قبر میں تو اتار دیا لیکن پلٹ کر پھر کبھی نہ باپ کی قبر پہ گیا نہ اکیلی رہ جانے والی ماں کا خیال کیا کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں؟ لیکن بے حسی کی سفاک چادر اوڑھے یہ زمانہ چپ چاپ سب دیکھتا رہا۔ بقول محسن بھوپالی:

جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے، سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو آ جاتی ہے، مصنوعی سی مجبوری

Is Qadar Hasaas Hona Mout hai Insaan Ki
Zindah Rehnay Kay Liay Kuch Be-Hissi Darkar Hai


اپنا تبصرہ بھیجیں