بہترین انسان عمل سے پہچانا جاتا ہے
ورنہ اچھی باتیں تو
دیواروں پہ بھی لکھی ہوتی ہے
بے شک انسان اپنے اعمال سے پہچانا جاتا ہے اچھی باتیں تو ہر کوئی کرتا ہے اور دیواروں پہ بھی لکھی ہوتی ہیں شائد ان کے خیال میں ان پر عمل کرنا ممکن نہیں- ایسی سوچ بچار اور خیال بھی منفی رویہ میں آتے ہیں- زندگی عمل سے عبارت ہے۔ ربِّ کائنات کا فرمان ہے کہ ” لیسَ ِلاانسانَ الاّ سعیٰ” یعنی انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جتنی وہ اس کے لیے کوشش کرتا ہے۔ یہ اصول انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ اقبال نے کہا
علم سے زندگی چلتی ہے قناعت بھی رسم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ حضوری ہے نہ درباری ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
زندہ انسان اپنی دنیا آپ پیدا کرتا ہے۔ جو دوسروں کے سہارے جیتا ہے اقبال اسے مردہ انسان سے تعبیر کرتے ہیں۔جو قومیں قوت عمل پہ یقین رکھتی ہیں حالات کے مطابق ہمیشہ صحیح فیصلے کرتی ہیں وہ کبھی انتشار کا شکار نہیں ہوتیں۔ محنت کی عظمت پہ یقین رکھتے ہوئے اپنے اصولوں پہ عمل پیرا ہوتیں ہیں اور کامیاب ہوتیں ہیں۔ ایسی قومیں زوال پزیر نہیں ہوتیں۔ وہ قوم ترقی کی منازل طے کرتی کرتی ایک عظیم قوم بن جاتی ہے۔صرف خوش بیانی کے جوہر دکھا کر دنیا میں کوئی قوم ابھری نہیں ہے ۔