کامیابی کی خواہش اور نا کامی کا خوف


وہ شخص کامیاب نہیں ہوپاتا
جس میں نا کامی کا خوف
کامیابی کی چاہت سے زیادہ ہو

تقدیر ،مقدر اور قسمت یہ تینوں الفاظ عام طور پر ایک ہی معنی میں بولے جاتے ہیں۔ لفظ تقدیر کے لغوی معنی اندازہ، مقدار، قسمت، نصیب، بخت یا وہ اندازِ قدرت یا فطرت ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے مادے میں لکھ دیا ہے ۔ لغت کی بعض کتابوں میں تقدیر کا مادہ قدرہے اور اس کے معنی قادر مطلق اللہ عزوجل کی جانب سے رزق کے حصے کر دینا اور اندازہ کردینا لکھا گیا ہے۔

درحقیقت تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے ۔

1 تقدیر معلق: یہ ایسی تقدیر ہے کہ لکھ دی گئی ہے مگر انسان کی دعا، کوشش اور صدقے وغیرہ سے تبدیل ہوجاتی ہے ۔ اس کے بارے میں قرآن مجید فرقان حمید کی سورة الرعد میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”اللہ جس (لکھے ہوئے ) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے ) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب ہے “۔

2 تقدیر مبرم: یہ ایسی تقدیر ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی، اس کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے ۔ تقدیر کی سب سے اچھی تعریف حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کی ہے ، آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہاکہ تقدیر سمجھائیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس شخص سے کہا کہ ایک ٹانگ اٹھاؤ ، اس نے اٹھائی ۔

آپ نے اسے کہا کہ اب اس کے ساتھ دوسری بھی اٹھاؤ ۔ اس نے کہا کہ یہ تو نہیں اٹھا سکتا وگرنہ میں گر پڑوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ یہی تقدیر ہے ۔ یعنی آدھے کام ہم پر چھوڑ دیے گئے اور آدھے کے فیصلے کر لیے گئے اگر سب فیصلے کر لئے جاتے تو پھر جنت اور دوزخ کے معاملات چہ معنی “۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سرانجام پانے والے اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں۔
پہلے وہ جو انسان پر مکمل طور پر حاوی ہوتے ہیں جن کو ہم چاہ کر بھی بدل نہیں سکتے ۔ ان میں کچھ تو نظام قدرت کے تحت سر انجام پاتے ہیں جیسا کہ سورج کا مشرق سے طلوع ہونا، پرندوں کا اڑنا، موت کا بر وقت آنا وغیرہ اور کچھ وہ ہیں جو اگرچہ نظام قدرت کے تقاضوں میں سے نہیں لیکن پھر بھی ہم ان کو اپنی مرضی سے بدل نہیں سکتے، جیسا کہ آپ کسی پرندے پر نشانہ باندھ رہے ہوں لیکن غلطی سے گولی کسی اور کو جا لگے ۔

لہٰذا اس طرح کے اعمال میں ہم مکمل طور پر مجبور ہیں کیونکہ ان کا اسی طریقے سے ہونا دراصل اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا، جسے ہم قضا کہتے ہیں۔

دوسری طرح کے اعمال دراصل وہ افعال ہیں جن پر انسان حاوی ہے اور جو اچھائی اور برائی کی بنیاد بنتے ہیں۔ جیسا کہ اگر آپ کے ہاتھ میں چاقو تھما دیا جائے تو آپ اس کو کس طرح استعمال کرتے ہیں یہ مکمل طور پر آپ پر ہی منحصر ہے ، اور اسی طرح کے بہت سے افعال و اعمال ہیں جن کی اچھائی اور برائی کا انسان کو شعور دیا گیا ہے اور پھر اسی کی مرضی و منشا پر چھوڑا گیا ہے کہ اچھائی اور فلاح کا راستہ اختیار کرے یا کہ برائی کا، اور یہ اس کے اپنے اختیار میں دیا گیا ہے ۔

لہٰذاس حیثیت سے یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ پہلے تو ہم اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے خیر اور شر کے درمیان تمیز کر یں اور پھر زندگی کے امتحان میں کامیابی کے لیے بھلائی کے راستے کو چنیں۔ تقدیر پر ایک بحث یہ بھی ہے کہ بندہ مجبور بھی ہے اوراختیار بھی رکھتا ہے لیکن کتنا مجبور ہے اور کتنا مختار اس کا علم کسی کو نہیں۔اسلئے بندہ جب کوئی بھی کام کرتا ہے ، محنت، منصوبہ، ٹارگٹ اور سرمایہ لگاکر سمجھتا ہے کہ حل نکل آئے گا لیکن منصوبہ اس کے خلاف ہو جاتا ہے تو خود اپنی اور دنیا کی باتوں کی وجہ سے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے ۔

اسلئے کہا جاتا ہے کہ نتیجہ اللہ کریم پر چھوڑنے والا کبھی دُکھی نہیں رہتا اور نتیجہ اپنے حق میں دیکھنے والا کبھی سکھی نہیں رہتا۔ اگر تقدیر لکھنے والے سے محبت ہو جائے تو انسان تقدیر کے لکھے پر ہمیشہ راضی رہے، پس دعا کرنا چاہیے کہ یا ربّ کریم مجھے محنت و عبادت کا شوقین بناکر شاکر ، صابر اور متوکل بنا دے تاکہ مقام رضا پر کھڑا نظر آؤں ۔

قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے“ یہ نظریہ تدبیر کی حقانیت کا اعلان ہے ، عمل پسند لوگ تدبیر اور تصوراتی لوگ تقدیر پر تکیہ کرتے ہیں۔ مذہبی ذہنیت کا زیادہ تر رجحان تصوف و عرفان اور لادینی اذہان صرف اور صرف عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ انقلابی فکر کے حامل لوگ بھی وابستہ تدبیر ہوتے ہیں اور رومانی و افسانوی اذہان مافوق الفطرت معجزات و کرامات و مکاشفات و توہمات کی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں ۔

تدبیر کی بنیاد منصوبہ بندی، معاملہ فہمی اور زمینی حقائق پر ہوتی ہے جبکہ تقدیر کے حامی تخیلاتی و غیبی احکام و امور کو حرز جاں سمجھتے ہیں۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے خیال میں انسانی خودی اور اس کی تقدیرکا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ اگر انسان اپنی خودی کی تربیت میں ان اصولوں کا خیال رکھے جن کی وجہ سے باطنی صلاحیتیں ظاہر ہوتی ہیں تو وہ اپنی تقدیر کا خود مالک بن سکتا ہے ، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

بے شک یقین اور دعا کا بہت گہرا تعلق ہے اللہ غافل اور لاپروا دلوں کی دعا قبول نہیں کرتا یقین سے مانگیے اور خوب مانگیے اپنے رحیم و کریم رب سے جو کبھی واپسی کا تقاضا نہیں کرتا!

Wo Shakhs Kamyab Nahi Ho Pata
Jis Mein Nakami Ka Khoof Kamyabi Ki Chahat Say Zayada Ho


اپنا تبصرہ بھیجیں