بیوی کے نخرے اور قربانی کے بکرے
ہمیشہ ہی مہنگے پڑتے ہیں
مرزا سلطان کی کیا بات ہے، پہلے اپنی بیگم کے انتہائی مہنگے جوتے خرید لے گا، پھر روتا پھر ے گا، جوتے بہت مہنگے”پڑے“ ہیں۔ ہمارے نزدیک تو وہ بندہ بھی قربانی کے دنوں میں اہم ہوجاتا ہے جس کی عقل گھاس چرنے گئی ہو۔ چونکہ عیب دار جانور کی قربانی جائز نہیں اس لیے مرزا سلطان پہاڑی بکروں کی قربانی سے پرہیز کرتا ہے، وجہ یہ بتاتا ہے ”پہاڑوں پر رہنے کا حق شاہینوں کا ہے اور جو بکرا شاہین کی جائیدار پر قابض ہو،اس سے بڑا عیب کیا ہوگا؟“جس طرح سگریٹ کے ایک طرف شعلہ اور دوسری طرف بے وقوف ہوتا ہے، اسی طرح قربانی کے دنوں میں رسی کے ایک طرف بکرا اَور دوسری طرف بھی بکرا ہی ہوتا ہے۔ بکرا لینے سے پہلے کتنی بار انسان کو خود بکرا بننا پڑتا ہے ۔
یہ قربانی کرنے والے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں۔ سب سے پہلے واسطہ پڑتا ہے، بکر ا فروش سے۔ وہ اپنے بکروں میں اتنی خوبیاں گنوائے گا کہ بکرا خریدنے سے زیادہ اسی کی عزت کرنے کو دل کرنے لگتا ہے۔ خوامخواہ ہی بکرے کو وزیر اعظم سے بھی زیادہ پروٹوکول کیلئے ذہن فاسد خیالات آنے لگتے ہیں اور قیمت سن کر تو واقعی انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بکرا کسی بھی انسان سے زیادہ قیمتی ہے۔آپ اچھی طرح ٹھوک بجا، نچا اور ٹہلا کر ، اپنی جمع پونجی لٹا کر ایک عدد بکرا خرید لیتے ہیں ، خوشی سے گھر کو روانہ ہوئے تو سواری والا بھی آپ ہی کی کھال اتارنے کو تیار ملے گا۔ ٹرانسپورٹر کرایہ اتنا بتائے گا کہ جیسے بس یہی ایک بکرا ہے جس کو لے جانے کیلئے اتنا ایندھن لگ جائے گا کہ ایک شخص کی مہینے بھر آمدنی خرچ ہوجائے
بکرا گھر آجائے تو محلے والوں کے عجیب عجیب سوالات کا سامنا رہتا ہے۔”ارے بھئی یہ مریل سا میمنا کہاں سے لے آئے؟“ اس سوال کے بعد ہی آپ کی رہی سہی ہمت جواب دے جاتی ہے، بکرے کی گنوائی گئی خوبیاں از خود خامیوں میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے، اچھا اور عمدہ خاندانی بکرا کوئی میراثی ٹائپ شے لگنے لگتا ہے اور اس کی ”میں، میں“ جو بکر امنڈی میں ایک سرتال پیدا کرتی نظر آتی تھی، یہاں انتہائی بکواس معلوم ہونے لگتی ہے۔ ایک او ر دل جلا سوال نما طنز آپ پر اچھالا جاتا ہے۔”واہ بھئی، قربانی کیلئے بکرا خرید لیا، تمہاری جتنی آمدنی ہے، اس میں تو یہ ممکن نہیں۔ یقینا کوئی اوپر کی آمدنی ہے۔“ اس سوال کا جواب دینے سے پیشتر ہی آپ بکرے پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر وہ حقارت سے آپ کو دیکھتا ہے”کیوں رے! مجھے میراثی سمجھ رہا تھا۔ دے اب اس سوال کا جواب۔“آپ لاکھ کہتے رہیں کہ سال بھر قربانی کیلئے رقم جمع کی ہے مگر سوال پوچھنے و الا یقین نہیں کرے گا۔
جیسے تیسے وقت کٹے گا، عید سر پر آئے گی اور قصائی سے بھاﺅ تاﺅ میں آپ کا تاﺅ میں آجانا لازمی امر ہوگا۔ تو وہ اپنی مرضی کے دامِ کٹوائی بتا کر آپ کو دام میں لینے کی کوشش کرے گا ۔ بھلے سے لوگ آپ سے ملنے کیلئے وقت لینے کو ترستے ہوں، مگر یہاں معاملہ الٹ ہوگا۔ شاید اسی کو کہتے ہیں، اونٹ پہاڑ کے نیچے۔ اللہ اللہ کرکے ”بکرا قربان ہوا ، اے مسلماں تیرے لیے!“ اب جس رشتے دار کے گھر گوشت بھجوائیں گے تو وہ اس مہنگے ترین بکرے کا گوشت کھانے کی بجائے ایس ایم ایس کرکے دیگر احباب کو آپ کی چغلیاں کھاتا پھرے گاکہ بلا جیسا بکرا کاٹا اور ہمیں چھیچڑے اور ہڈیاں بھیج دیں۔ اب آپ پریشان کہ جو بکرا تھا ہی مریل قربان ہونے کے بعد بلا جیسا کیسے ہوگیا؟ ان تمام مراحل کے بحسن و خوبی طے پاجانے کے بعد ایک مسئلہ تو رہ گیا، وہ ہے کھال کا مسئلہ ۔ جس طرح بکرا خریدنا ایک فن ہے، اسی طرح کھال دینا بھی ایک ہنر ہے کیونکہ قربانی آپ کو آخرت کے عذاب سے بچائے گی اور کھال سیاسی تنظیموں کے عذاب سے۔
کراچی وہ شہر ہے جہاں جانور کی سب سے پہلے جو چیز کاٹی جاتی ہے، وہ کھال کی پرچی ہے۔ بھائی لوگ اتنی عزت سے کھال طلب کرتے ہیں کہ نہ دینے میں آپ کی کھال اتارنے میں دیر نہیں لگتی۔
ان مسائل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیوی کے نخرے پھر بھی سستے ہوں گے مگر قربانی کے بکرے کتنے زیادہ مہنگے پڑتے ہیں۔
صحیح مرچ مصالحے لگا کے .