حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں، کہ
رسول الله ﷺ نے فرمایا، کہ الله تعالٰی فرماتا ہے
کہ جب میں کسی موِمِن بندے کی محبوب چیز اس دنیا
سے اٹھا لیتا ہوں پھر وہ ثواب کی نیّت سے صبر کرے
تو اسکا بدلہ جنّت ہی ہے
زندگی میں بیشتر ایسے واقعات پیش آتے ہیں، جن میں انسان جذبات سے مغلوب ہوجاتا ہے اور غیظ و غضب سے رگیں پھڑکنے لگتی ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ فوری طورپر انتقامی کارروائی کی جائے، جیسا بھی ہوسکے سامنے والے کو اپنی برتری اور طاقت کا ایسا کرشمہ دکھایا جائے کہ دشمن طاقتیں ہمیشہ کے لیے زیر ہوجائیں، ممکن ہے اس سے ذہنی و قلبی سکون ملے اور مختلف خطرات سے نجات بھی؛ مگر اسلام نے جذبات میں آکر کسی فیصلہ کی اجازت نہیں دی ہے، تمام ایسے مواقع پر جہاں انسان عام طورپر بے قابو ہوجاتا ہے، شریعت نے اپنے آپ کو قابو میں رکھنے ، عقل وہوش سے کام کرنے اور واقعات سے الگ ہوکر واقعات کے بارے میں سوچنے اور غور وفکر کرنے کی دعوت دی ہے، جس کو قرآن کی اصطلاح میں ”صبر“ کہاجاتا ہے۔
قرآن میں ” صبر“ مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے، اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ برائی کرنے والوں کی برائی اور بدخواہ لوگوں کے قصور کو معاف کیا جائے یعنی حاسدین اور دشمنوں کے تکلیف دہ کاموں پر غصہ اور اشتعال کے بجائے تحمل، بردباری اور برداشت سے کام لیا جائے، ارشادِ باری ہے: وَ لَاتَسْتَوِیْ الْحَسَنَةُ ولا السَّیِّئَةُ اِدْفَعْ بالَّتِی ھِیَ أَحْسَنُ فَإذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبیْنَہ عَدَاوَةٌ، کَأَنَّہ وَلِیٌّ، حَمِیمٌ، وَ مَا یُلَقّٰھَا اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ مَا یُلَقّٰہَا اِلاَّ ذُوْ حَظٍّ عَظِیْم۔ (سورہ فصلت: ۳۴) اور بھلائی اور برائی برابر نہیں، اگر کوئی برائی کرے تو اس کا جواب اچھائی سے دو،پھر تو تیرے اور جس کے درمیان دشمنی ہے وہ ایساہوجائے گا گویا دوست ہے ناتے والا اور یہ بات ملتی ہے انھیں کو جنھیں صبر ہے اور یہ بات ملتی ہے اس کو جس کی بڑی قیمت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ خدا نے اس آیت میں ایمان والوں کو غیظ و غضب میں صبر کا اور نادانی وجہالت کے وقت حلم و بردباری کا اور برائی کے مقابلہ میں عفو و درگزر کا حکم دیا ہے، جب وہ ایسا کریں گے تو خدا ان کو شیطان کے اثر سے محفوظ رکھے گا۔ (تفسیر کبیر: ۱۳/۶۴۰)
معلوم ہوا کہ غصہ اور اشتعال شیطانی اثر ہے، شیطان انسان کو مختلف تدابیرکے ذریعہ ابھارنا چاہتا ہے؛ تاکہ وہ جذبات میں آکر کوئی ایسا کام کربیٹھے جو اس کے لیے دور رس نقصانات کا باعث بنے؛ اسی لیے قرآن نے ہمیشہ عفو و درگزر کی تعلیم دی ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ معاف کرنے والوں کے لیے آخرت میں بڑا اجر ہے۔ بدخواہ اور حاسدین دنیا میں جتنا چاہیں تمسخر اور مذاق اڑالیں، ایک دن ضرور ان کو اپنے کیے ہوئے پر افسوس کا اظہار کرنا ہوگا، دنیا میں اگر کسی مصلحت کے سبب نجات مل بھی گئی تو قیامت جو عدل و انصاف کا دن ہے، وہاں پر ہر ایک کو اچھے اور بُرے عمل کا بدلہ مل کر رہے گا۔ خدا نے اپنا یہ فیصلہ ان الفاظ میں سنایا ہے : قُلْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا لِلَّذِیْنَ لَایَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللّٰہِ لِیَجْزِیَ قَوْمًا بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہ وَ مَنْ أَسَاءَ فَعَلَیْھَا ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ۔ (سورہ جاثیہ: ۲۴) ” ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ ان کو جو اللہ کے جزاو سزاکے واقعات پر یقین نہیں رکھتے معاف کردیا کریں؛تاکہ لوگوں کو ان کے کاموں کا بدلہ ملے، جس نے اچھا کیا اس نے اپنے بھلے کے لیے کیا اور جس نے براکیا اس نے اپنا برا کیا، پھر تم اپنے پروردگار کے پاس لوٹائے جاوٴگے“ اس آیت کے شانِ نزول میں لکھا ہے کہ کسی منافق یا کافر نے کسی مسلمان سے کوئی بدتمیزی کی بات کہی تھی، اس سے بعض مسلمانوں کو طیش آیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور مسلمانوں کو عفو و درگزر کی نصیحت کی گئی۔ (تفسیر کبیر ۱۴/ ۱۷۳)
اس مفہوم پر مشتمل متعدد آیات قرآن میں نازل کی گئی ہیں، جن میں مختلف پیرا یہ سے جذباتیت کے بدلے حقیقت پسندی، غصہ اور اشتعال کے بجائے صبر و تحمل اور انتقامی کارروائی چھوڑ کر بردباری اور قوتِ برداشت کی صفت اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ صبر کا راستہ جنت کا راستہ ہے اور کسی ناخوشگوار واقعہ پر کسی بھائی کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھنا شیطانی راستہ ہے اور شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے؛ اس لیے اس سے جہاں تک ہوسکے پرہیز کرنا چاہیے۔ (سورہ فاطر: ۶)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا اعلان کیا تو مکہ کا سارا ماحول آپ کے لیے اجنبی بن گیا، وہی لوگ جن کے بیچ آپ کا بچپن اور آپ کی جوانی گزری، جو آپ کی امانت و صداقت کے بڑے مداح اور عاشق تھے، آپ کے مخالف اور جانی دشمن ہوگئے، آپ کے رشتہ دار اور اہل خاندان جن سے آپ کو بڑی امیدیں وابستہ تھیں، ان کا بھی آپ کو کوئی سہارا نہیں ملا، وہ بھی انجانے اورنا آشنا ثابت ہوئے ، تنِ تنہا توحید کا پیغام لیے گھر سے باہر نکلے؛ مگر کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ حالات کا رخ بدل گیا، ناموافق ہوائیں اب موافق ہوگئیں، دشمنوں کے دل پسیج گئے اور پھر وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے دیوانے بنے کہ تاریخِ انسانیت میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
عرب کی اجڈ اور گنوار قوموں کے دل و دماغ میں اسلام اور آپ کی بے پناہ محبت اتنی جلدی کیسے رچ بس گئی اور کس طرح ان جانے دشمنوں نے دل و جان سے آپ کی امارت واطاعت کو قبول کرلی، یقینا اس پر انسانی عقلیں دَنگ رہ جاتی ہیں اور حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔ سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے اس تاریخی انقلاب میں جہاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شیریں زبان، اعلیٰ اخلاق، بہترلب ولہجہ اور پیہم جدوجہد کا حصہ ہے؛ وہیں آپ کا صبر و تحمل، بردباری اور قوتِ برداشت نے بھی بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ بلاشبہ صبرو تحمل کا وصف سراپا نیک ، صالح ، انتہائی مفید و معنی خیز ہے، اس سے سعادت و بھلائی، سکون و اطمینان اور کیف و نشاط کے مواقع ہاتھ تو آتے ہی ہیں، ساتھ ہی صبر و استقامت کی راہ پر چل کر لوگوں کی قیادت و امامت کا درجہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، خدا نے اپنا یہ دستور اور قانون بہت پہلے ہی ان الفاظ میں سنایا ہے : وَ جَعَلْنَا مِنْھُمْ أَئِمَّةً یَّصُدُّوْنَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا (السجدہ:۲۴) ” ہم نے ان میں سے بعض کو قائد اور امام بنایا جو ہماری باتوں سے لوگوں کو واقف کراتے تھے، یہ ان کے صبر کا بدلہ ہے۔“ موٴمن کی زندگی کا وہ کون سا لمحہ ہے جس میں اس کو کسی نہ کسی طرح جسمانی اور روحانی اذیت و پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو، تاریخ شاہد ہے کہ جس نے بھی ان تکلیف دہ مواقع میں صبرو تحمل سے کام لیا، اس کے لیے بعد میں راستے ہموار ہوگئے، کامیابی کی منزل قریب ہوگئی اور پھر بعد میں دشمنوں کے دل بھی بدل گئے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دَور کی تمام مصیبتوں کو مسکراتے ہوئے قبول کرلیا، اعلانِ توحید کے بعد بت پرستوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت رسانی کے لیے جو نت نئے طریقے ایجاد کیے تھے، اس کی طویل اور دردناک داستانِ سیرت کی تقریباً تمام کتابوں میں موجود ہے، وہ عام راستہ جس میں ہر کس و ناکس کو چلنے کا اختیار تھا، جب سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تو پتھر کی بارش برسائی جاتی، کانٹے بچھائے جاتے، تنگ کیا جاتا، جسم ِ اطہر پر نجاستیں ڈالی جاتیں؛ بلکہ حرمِِ مکی جہاں عام چرند و پرند کو بھی سکون و اطمینان اور تحفظ کا یقین ہوتا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سکون سے نماز پڑھنے کا موقع تک نہیں دیا گیا، ابوجہل کے اشارے سے بدبختوں نے آپ کی پشت ِ مبارک پر اونٹ کی ناپاک اوجھڑی رکھ دی، یہ مخالفت کے دیوانے انسانی حدوں کو پارکرگئے اور آپ کی شرافت کو چیلنج کیا۔ کبھی آپ کو بیہودہ گالیاں دیں، کبھی جادوگر اور کبھی پاگل اور کبھی شاعر کہا اور ہزار طرح سے گستاخیوں اور بے ادبی کی وہ راہیں وضع کی گئیں جن سے غریب سے غریب اور کمزور سے کمزور تر انسان غصہ سے کانپ اٹھتا ہے؛ مگر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر وتحمل سے کام لیا اور کبھی آپ نے ان باتوں پر برہمی تک ظاہر نہیں فرمائی۔
طائف کا واقعہ کسے یاد نہیں ہے، بڑی تمنا اور آرزووٴں کے ساتھ اہل مکہ سے تنگ آکر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا سفر کیا کہ شاید وہاں کے لوگ کچھ موافقت کریں؛ مگر وہ لوگ چار قدم اور آگے نکلے، صرف گالی اور تمسخر پر اکتفا نہیں کیا گیا؛ بلکہ اوباشوں کے ذریعہ اتنے پتھر برسائے گئے کہ قدمِ مبارک خون سے بھیگ گئے، ضعف و کمزوری سے طبیعت بوجھل ہوگئی۔ آپ تھک کر جب بیٹھ جاتے تو زبردستی آپ کو اٹھایا جاتا اور پھر پتھروں کی بارش برسائی جاتی۔ اس عظیم حادثہ سے عرش پہ کہرام مچ گیا، عذاب کے فرشتے نازل کیے گئے؛ مگر نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا: اگر ان لوگوں نے ایمان قبول نہیں کیا تو مجھے امید ہے کہ ان کی نسلیں ضرور اسلام سے وابستہ ہوں گی، اس صبر و برداشت کی کیا دنیا مثال پیش کرسکتی ہے؟
یہیں تک نہیں، دشمنوں سے انتقام کا سب سے بڑا موقع فتح مکہ کا تھا۔ دشمن اس دن مکمل آپ کے قابو میں تھے کہ اگر آپ چاہتے تو ایک ایک اذیت کا بدلہ لے سکتے تھے؛ مگر آپ نے یہ کہتے ہوئے سب کو معاف فرمادیا لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اذْھَبُوْا فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاء” تم پر کوئی ملامت نہیں جاوٴ تم سب آزاد ہو“ (سیرةالنبی ۲/۳۶۲)
وہ لوگ جو خون کے پیاسے تھے اور جن کے دست ِ ستم سے آپ نے طرح طرح کی اذیتیں اٹھائی تھیں، وحشی جو آپ کے عزیز ترین چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا، ہندہ (ابوسفیان کی بیوی) جس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا سینہ چاک کیا اور دل و جگر کے ٹکڑے کیے، ان سے آپ نے کوئی بازپرس نہیں کی اور نہ ہی ان سے کوئی انتقام لیا، ہندہ اس کرشمہٴ اعجاز سے متاثر ہوکر بے اختیار بول اٹھی: یا رسول اللہ! آپ کے خیمہ سے مبغوض تر خیمہ کوئی میری نگاہ میں نہ تھا؛ لیکن آج آپ کے خیمہ سے زیادہ محبوب کوئی دوسرا خیمہ میری نگاہ میں نہیں۔ (صحیح بخاری)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی صبر و تحمل سے لبریز ہے، کسی موقع پر بھی آپ نے نفسانی جذبات کا استعمال نہیں کیا، غیظ و غضب اور وقتی معاملات سے طیش میں آکر کوئی بھی اقدام بلاشبہ ہزار مفاسد پیدا کرتا ہے؛ اس لیے ضرورت ہے کہ تمام شعبہائے حیات میں صبر و تحمل سے کام لیا جائے، آقا اپنے ملازم کے قصور اور لغزشوں کو معاف کرے اور اگر وقتی طورپر کبھی آقا ناراض ہوجائے تو ملازم کو بھی اسے برداشت کرنا چاہیے، باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹااپنے باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرے، میاں بیوی میں خلش ایک فطری بات ہے؛ مگر اسے باہمی صبرو تحمل سے دور کرتے ہوئے زندگی کو خوش گوار بنانے کی کوشش کی جائے۔ غرض پرسکون اور کامیاب زندگی کے لیے صبر و تحمل اور قوتِ برداشت بنیادی عنصر ہے۔ ہماری پستی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم وقتی طورپر جذبات کے رَو میں بہہ جاتے ہیں، جس سے دوررس نگاہ متأثر ہوجاتی ہے اور سوچ و تدبر کا مزاج نہیں رہتا۔ موجودہ حالات میں خاص طورپر سیرتِ نبوی کے اس پہلو کو اپنانے کی سخت ضرورت ہے۔