دوریوں کا سبب


دوریوں کا سبب
فاصلے نہیں، بد گمانیاں ہیں

انسانی تعلقات کی بنیاد جذبات پر قائم ہے۔رشتوں کی مثال حقیقت میں ہرے بھرے پودے کے مانند ہوتی ہے ،جس کو سینچنے کے لیے بڑی محنت ،وقت اور قربانی درکار ہوتی ہے۔اور اس کی نگہ داشت اور آبیاری خاندان کے ہر فرد کا فرض ہے۔حقیقت میں ہماری ذات سے وابستہ ہر رشتہ اور ہر تعلق اس وقت تک مضبوط و مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک اس میں ’محبت کا امرت ‘ اچھی طرح رچ بس نہیں جاتا۔انسانوں میں جتنی زیادہ قربتیں ہوتی ہیں اتنی ہی زیادہ آپس کی محبت بڑھتی ہے- فاصلے اور دوریاں “نظر سے دوردل سے دور” سے باہمی روابط وپیار میں سردمہری پیدا کرنے کاسبب بنتے ہیں-

آج محبت کے فقدان نے خاندانوں ،رشتے داروں ،معاشرتی تعلقات حتی کہ ازدواجی تعلقات میںبھی دوریاں پیدا کر دی ہیں ۔اب دیکھنے میں آتا ہے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت کے بجائے عداوت اور ہم دردی کے بجائے بدلہ لینے کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ نتیجتا ہر رشتہ ،ناطہ ،ربط و تعلق نا پائیدار،کمزور ومشکوک دکھائی دیتا ہے۔اب ہمارے رویوں، باتوں اور چال چلن میں خلوص اور محبت باقی نہیں رہی اور اس کی کمی نے خونی رشتوں اور عزیزوں کے درمیان صدیوں کے فاصلے حائل کر دیے ہیں اور ان کے درمیان چھوٹی چھوٹی غلط فہمیوں ،رنجشوں اور شکایتوں کو عام کر دیا ہے۔دل کی بد گمانی ،لہجے کا طنز ،حاسدانہ رویہ اور محبت کی عدم موجودگی نے خاندانوں کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔

دوریوں کا سبب

اکثر کیا جاتا ہے کہ تعلٌقات خراب ہونے کی زیادہ وجوہات فاصلے ہیں لیکن اس سے بھی بڑی وجہ ایک دوسرے سے بد ظنی ہے- بدگمانی کا مرض خاندان اور معاشرہ میں فتنہ و فساد کا سب سے بڑا سبب ہے۔ لوگ کسی دوسرے کے قول و فعل کے بارے میں غلط رائے قائم کرتے ہیں، پھر نہ صرف یہ کہ خود اس سے بدظن ہوجاتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کے خلاف بھڑکانے کا سبب بنتے ہیں- بد گمانی عربی کے لفظ ’الظن ‘کا ترجمہ ہے ۔ عربی کا ’ظن ‘اچھے اور برے ،دونوں معنی میں آتا ہے۔ جس طرح اردو میں گمان دونوں معنی میں آتا ہے۔قرآن مجید میں جہاں بدگمانی سے روکا گیا ہے-

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ [متفق علیہ]
’’ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ گمان سے بچو کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔‘‘ (متفق علیہ)

صحیح بخاری میں پوری حدیث اس طرح ہے:
وَلَا تَحَسَّسُوا وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا تَنَاجَشُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا
’’ اور نہ ٹوہ لگاؤ، نہ جاسوسی کرو، نہ دھوکے سے (خرید و فروخت میں) بولی بڑھاؤ، نہ ایک دوسرے پر حسد کرو ، نہ ایک دوسرے سے دل میں کینہ رکھو اور نہ ایک دوسرے سے قطع تعلق-

﴿إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ﴾
’’بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔‘‘

اللہ تعالی نے ہر گمان سے منع فرمایا بلکہ فرمایا:
﴿اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ﴾
’’زیادہ گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گنا ہ ہیں۔‘‘

Doorion Ka Sabab
Faslay Nahin, Bad Gumanian Hein


اپنا تبصرہ بھیجیں