رسول اللہﷺ حسن اور حسین رضی اللہ عنہ کو ان کلمات کے ساتھ پناہ دیا کرتے تھے
میں تم دونوں کو اللہ کے کامل کلمات کے ساتھ ہر شیطان اور زہریلے جانور سے اور ہر لگ جانے والی نظر سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔
(بخاری ٣٣٧١)
نظر بد جسے زخمِ چشم یا نظر لگنا بھی کہا جاتا ہے- نظر بد کا انکار ممکن نہیں ہے- ہمیں انبیاء کی تاریخ میں ایک واقعہ ملتا ہے کہ جب حضرت یعقوبؑ کے گیارہ فرزند اپنے بھائی حضرت یوسف ؑ سے جو اس وقت مصر کے حکمران بن چکے تھے۔ ملاقات کے ارادے سے کنعان سے روانہ ہونے لگے تو حضرت یعقوبؑ نے اپنے گیارہ فرزندوں کو ہدایت کی کہ تم سب ایک دروازے سے داخل نہ ہونا، کیونکہ تمہاری تعداد سے اندیشہ ہے کہ کہیں نظر نہ لگ جائے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا:
’’نظر لگنا حق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہے تو وہ نظر بد ہے۔
آپؐ کا ایک اور فرمان ہے کہ میری امت میں قضا و قدر کے بعد اکثر موت نظر لگنے سے ہوگی۔ نیز آپؐ نے فرمایا نظر انسان کو قبر تک پہنچا دیتی ہے اور اونٹ کو ہانڈی تک میری امت کی اکثر ہلاکت اسی میں ہے(تفسیر ابن کثیر)
ابن ماجہ میں ہے کہ سہیل بن حنیفؓ صحابی رسولؐ کو ان کے کسی ساتھی کی نظر لگی اور بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ رسول اکرمؐ کو خبر ہوئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی کیوں اپنے بھائی کو قتل کرتا ہے یعنی نظر لگاتا ہے جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی کسی ایسی چیز کو دیکھے اور وہ اس کو اچھی لگے تو اس کو چاہیے کہ اس کے لئے برکت کی دعا کرے۔