خوشامدیوں کا ٹولہ پرانے وقتوں سے چلا آرہا ہے۔ موجودہ دور میں بھی اس قسم کے خوشامد ی ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ جو تعریف کرنے پر آئیں تو تعریفوں کی کتاب پر کتاب لکھ دیتے ہیں۔ لیکن اہل قلم اورکالم نگار اپنی تحریروں میں خوشامد کرتے ہوئے زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے ۔یہ ایک رواج بن چکا ہے کہ ضرورت سے زیادہ تعریف کی جائے، تاکہ سننے والے کے دل میں اُس کیلئے ایک نرم گوشہ پیدا ہو اور اس نرم گوشے سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیابیاں حاصل کرے۔
حضرت شیخ سعدی نے ایک حکایت میں فرمایا ہے کہ
دُشمن سے ہمیشہ بچو اور دوست سے اُس وقت جب وہ تمہاری تعریف کرنے لگے
حضرت شیخ سعدی کی حکایت سے اقتباس ہے ۔ جس میں ایک بادشاہ اور درویش کاذکر ہے کہ ایک نیک آدمی نے خواب میں دیکھا کہ ایک بادشاہ جنت میں ہے اور دوسرا درویش دوزخ میں پڑا ہے ۔وہ سوچ میں پڑ گیا کہ لوگ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ بادشاہ دوزخ میں ہوگا اور درویش جنت میں ۔لیکن یہاں تو معاملہ اس کے برعکس نکلا۔ معلوم نہیں اس کا سبب کیا ہے ۔غیب سے آواز آئی ”کہ بادشاہ درویشوں سے عقیدت رکھتا تھا۔ اس لئے بہشت میں ہے اور اس درویش کو بادشاہوں کے تقرب کا بڑا شوق تھا اس لئے جہنم میں ہے”۔
Mujhe bahut jarurat hai is kitab ki