مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے


سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے

ایک دن چاند نے سورج سے پوچھا” تم مشرق سے نکلتے ہو تو بڑی آب و تاب میں ہوتے ہو، تمھاری کرنوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے تم خوشی سے مسکرا رہے ہو”. لیکن مغرب میں تمہیں کیا ہوتا ہے تم مرجھائے ہوئے پھول کی طرح لگتے ہو یا پریشان حال مسافر کی طرح اداس…

سورج بولا” مجھے مشرق کی عادتیں اچھی لگتی ہیں، ماں باپ کا ادب بڑوں کا احترام شرم و حیا اور پردہ، اس لیے خوش ہوتا ہوں اور مسکراتا ہوں! مگر مغرب کی بے شرمی دیکھ کر ڈوب جاتا ہوں.



چاند نے پوچھا تم مغرب کے ملکوں میں بھی تو نکلتے ہو ؟؟

سورج کہنے لگا” غور سے دیکھنا کئی کئی روز میرے چہرے پر دھند کا نقاب ہوتا ہے

اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے اور تمام بنی نوع انسان کی فلاح اور کامرانی کا علمبردار ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبہ میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ آپ مشاہدہ کر لیں عام طور پر قرآن مجید میں اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا نہ ٹھہرنے کا متن عبادات کے ساتھ ملتا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤ، یا اس طرح کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔یہاں معاملہ عبادات کا نہیں اخلاقیات کے ساتھ خاص ہے اور اللہ کریم کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بنانے کا نہیں ، نہ لا کھڑا کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر تم میری ان حکمتوں کو نہیں مانتے ، ان پر عمل نہیں کرتے اور ان کو چھوڑ کر کسی اور کے طریق پر چلتے ہو تو گویا تم نے مجھے نہیں اسے خدا سمجھا اور میرے ساتھ لا کھڑا کیاجس کے طریقہ پر مجھے چھوڑ کر چل رہے ہو۔ان حکمتوں پر عمل پیرا نہ ہونا خدا کا انکار اور شرک ہے۔ اگر اس نقطہ کی رو سے دیکھا جائے تو آج ہمارا خدا اہل مغرب ہیں۔ ہم اللہ کریم کو چھوڑ کر ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، ان کی تقلید ہمارے دل و دماغ میں گھر کر چکی ہے۔ ہم مغرب کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں۔ ہمارا معاشرہ مغرب کا فطری غلام بن کر رہ گیا ہے۔ ہمارا کوئی شعبۂ زندگی ایسا نہیں جس میں ان کی غلامی کا رنگ نہ نظر آتا ہو خواہ وہ معاشی ہو، معاشرتی ہو، حتیٰ کہ ہم ان کے لسانی غلام بھی بن کے رہ گئے ہیں۔ ہمارا پیارا پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں کی قومی زبان اردو ہے۔

ہماری 20 کروڑ آبادی اردو بولنے اور سمجھنے والی ہے مگر ہماری دفتری اور کاغذی زبان کیا ہے ؟ ہمارے دفتری کاغذات میں انگریزی غلامی ہے خواہ وہ دفتر سرکاری ہوں یا نجی، کسی قومی ادارہ کے ہوں یا قومی عدالتوں کے یااسکول و کالج و یونیورسٹی کے۔ ہماری عدالتوں کے فیصلے انگریز کی لسانی غلامی میں دئیے جاتے ہیں، انگلش لکھنا پڑھنا نہ آتی ہو تو کوئی ہماری اسمبلیوں کا ممبر نہیں بن سکتا، نہ کوئی اعلیٰ گورنمنٹ کی ملازمت اختیار کر سکتاہے لیکن اگر قرآن پڑھنا نہ آتا ہو تووہ ہر طرح کے سرکاری عہدہ پر براجمان ہو سکتا ہے حتیٰ کہ نماز اور کلمے بھی نہ آتے ہوں پھر بھی وہ وزیر ، مشیر، قانون دان اور ملک کا سربراہ تک بن سکتا ہے۔ ہم ہر لحاظ سے مغرب زدہ اور مغرب کے غلام بن کر رہ گئے ہیں ۔ ہمارے آج کے معاشرہ میں جو کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے وہ مغرب کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ کیسے کامیاب ہوئےاور مغربی کلچر و روایات کو صرف پسند ہی نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں دنیا کے لئے مثالی سمجھا جاتاہے۔ ہم مجموعی طور پر مغرب زدہ ہیں اسلام زدہ نہیں۔ نہ قرآن و سنت کو دیکھتے ہیں،نہ اپنے اسلاف کو ، کہ انہوں نے کیسے کامیابی حاصل کی۔ ہمارے معاشرہ نے ترقی کرنی ہوتو مغرب نمونہ، ہنر سیکھنا ہو تو مغرب نمونہ،ارتقاء و تخلیق کے لئے مغرب نمونہ، اعلیٰ تعلیم، علم و حکمت پڑھنا سیکھنا ہو تو مغرب روانہ،ڈاکٹر و حکیم بننا ہو، علوم طب اور حسن معاشرت کے اصول سیکھنا ہوں تو مغرب روانہ، اچھے اخلاق و اطوار سیکھنے ہوںتو مغرب نمونہ، تہذیب و تمدن سیکھنا ہو تو مغرب نمونہ، ادارے بنانا ہوں، محکمے قائم کرنا ہوں، پالیسیاں اور ضابطے ترتیب دینے ہوں تو مغرب نمونہ ہے۔ ہماری نوجوان نسل کا پسندیدہ لباس مغربی پینٹ شرٹ، پسندیدہ شکل و صورت، واضح قطع مغربی کلین شیو، ہمارا پسندیدہ لائف اسٹائل مغربی۔

خدائے حقیقی کہاں ہے؟
تمہارے بزرگوں کے اطوار کہاں ہیں؟
قرآن وسنت کی تعلیمات کہاں ہیں؟
کیا قرآن و سنت نمونہ نہیں بن سکتے؟
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اورآپ ﷺ کا اسوہ کہاں ہے؟
جب ہرطرف مغرب ہی مغرب ہے تو یہ معاشرہ مغرب کے ہی خدا ہونے کا اعلان کیوں نہیں کردیتا؟
حقیقی خدا کو ماننے اور اسکے احکامات و ہدایات پر عمل کرنے کا نام نہاد جھوٹا لیبل کیوں لگا رکھا اپنے اوپر؟

خدا کی قسم! مغرب ہمارے اسلاف کی طرف دیکھ کر کامیاب ہوا اور ہم نے ذلت و رسوائی، خواری و ناداری دیکھی اور دردر کی ٹھوکریں کھائیں تو صرف اللہ کے اصولوں سے انحراف کر کے اور رسول اللہ ﷺ کے نقش قدم سے ہٹ کر چل کے۔ یہ اس دنیاکی زندگی کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے نصب العین اور مقصدِ زندگی کو پس پشت ڈال دیتی ہے ،ا سکے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق طرز عمل اختیار نہیں کرتی مسلسل جد وجہد اور سعی و حرکت نہیں کرتی تو اس کا صفحۂ ہستی سے مٹ جانا اسی طرح یقینی ہوتا ہے جس طرح تیل ختم ہو جانے کے بعد چراغ کاگل ہوجانا یقینی ہوتا ہے ۔

کہ مغرب کی طرف آؤ گے تو ڈوب جاؤ گے

آج ہم یقینی طور پر ڈوب رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ زوال پذیر ہے۔ ہمارے چہرے مغرب زدہ ہیں، ہمارے لباس مغرب زدہ ہیں، ہم مغرب جیسے بننا پسند کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے دین کو ترک کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ذلت و رسوائی ہمارا مقدر ٹھہر چکی ہے۔

Suraj Hamain Har Shaam Yeh Dars Daita Hai
Maghrib Ki Traf Jao Gay To Doob Jao Gay


اپنا تبصرہ بھیجیں