صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے


عام انسانوں کے علاوہ بڑے بڑے بادشاہوں کی اوقات بھی بدلتے دیکھا ہے۔ یہ اک تلخ حقیقت ہے کہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔ نصیب بھی بدلتے ہیں۔ اور نصیب بدلنے میں اللہ تعالی نے انسان کو بھی کسی حد تک اختیار دیا ہے

صبح کے تخت نشیں، شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا

نصیبوں کا کھیل

انسان بھی عجیب شے ہے۔ جیتا ہے تو اس طرح کہ جیسے کبھی مرنا ہی نہیں اور مرتاہے تو اس طرح جیسے کبھی زندہ بھی نہیں تھا۔جس زندگی پر انسان اکڑتا اورگھمنڈ کرتا ہے وہ فقط کچی مٹی کا دیا ہے جوہوا کے ایک جھونکے سے بجھ جاتا ہے اورپھر اوقات فقط اتنی سی ہے کہ مٹی، مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتی ہے۔ دولت، اقتدار، اختیار، عہدہ اور شہرت گھر کی چاردیواری میں داخل ہوں تو انسان اپنی اوقات بھول جاتا ہے۔ دوسروں کو کم تر اور ہیچ سمجھنے لگتا ہے، اس کی ہر ادا اورہر حرکت سے غرور یوں ٹپکنے لگتا ہے اور انسان اس وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے جیسے قیامت تک اسی کّروفر کے ساتھ دندناتا رہے گا۔ بہت سے لوگ دولت کے انبار پر بیٹھے ہوئے ہیں، غرور و پندار میں مبتلا ہیں، اقتدار کی بلند پہاڑی پر جلوہ افروز ہیں، اختیارات اورشہرت کی لہروں پر سوار ہیں یا دنیا کے فریب ِنظر میں مبتلا ہیں ان سب کے چمکدار چہروں پر خلش کی سلوٹیں دیکھی جاسکتی ہیں اوروہ خلش زندہ، نیم مردہ یا تقریباً مردہ ضمیر کا کارنامہ ہوتا ہے۔

مردہ ضمیر بھی کبھی کبھی خلش پیدا کرتا ہے کیونکہ ضمیر بہرحال ضمیر ہے چاہے اسے خوف ِ خدا سے زندہ رکھا جائے یا ہوس دنیا سے مردہ کردیا جائے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ زمین بڑے بڑے فرعون، بڑے بڑے قارون اوربڑے بڑےنمرود کھا گئی ہے آج ان کا نام بھی مٹ چکا ہے اوریاد بھی، اس لیئے انسان نہ دولت کے نشے میں بہک کر غرور کرے، نہ جھوٹ بول کر دوسروں کو دھوکہ دے۔ اسی لئے توکہا جاتا ہے کہ موت کو یاد رکھو لیکن کبھی موت کی آرزو نہ کرو کیونکہ موت کی یاد انسان کے بہت سے نشےاتار دیتی ہے اور اس کے غروروتکبر کو کھا جاتی ہے۔

اے کاش! ہم یہ کبھی نہ بھولیں کہ زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔

Subah Kay Takhat Nasheen, Shaam Ko Mujrim Thehray
Hum Nay Pal Bhar Mein Naseebon Ko Badaltay Daikha


اپنا تبصرہ بھیجیں