نیکی اور گناہ


گناہ پر ندامت گناہ کو مٹا دیتی ہے
نیکی پر غرور نیکی کو تباہ کر دیتا ہے

حضرت علی رضی اللہ عنہ

گناہ پر ندامت
غلطی اور گناہ کا احساس اور ندامت اللہ کو بہت پسند ہے، جب کوئی انسان جرم اور گناہ کرنے کے بعداپنے مالک حقیقی کے سامنے روتا ہے تو وہ اس سے بے انتہا خوش ہوتا ہے گویا اس نے اپنی بندگی، عاجزی اور اللہ کی عظمت کااعتراف کرلیا ، اللہ کا کوئی ایسا بندہ نہیں جس کے دل و دماغ دنیا کی چمک دمک اور رنگ رلیوں سے متاثر نہ ہوتے ہوں، نفسانی خواہشات، دنیا کی مختلف لذتیں اور پھر شیطانوں کے مختلف جہتوں سے تسلسل کے ساتھ حملے ہیں جن کے سبب ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہوکر گناہ اور قصور کربیٹھتا ہے، لیکن جب وہ ندامت، شرمندگی اور اللہ کے نزدیک جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے اور اپنے کو مجرم اور خطاوار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا اور آئندہ کے لیے توبہ کرتا ہے تواس کے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور وہ اللہ کی نظر میں اتنا محبوب اور پیارا انسان ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو، قرآن مجید میں توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کے لیے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے اور یہی وہ تصور ہے جس کے استحکام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب اور بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گنہگاروں کا رونا، آہ کرنا، گڑگڑانا مجھے تسبیح پڑھنے والوں کی سبحان اللہ کی آوازوں سے زیادہ محبوب ہے۔

مولانا محمد قاسم نانوتوی، اللہ کے نزدیک بندوں کی ندامت اور آنسوؤں کے اس قدر اہم ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ کی عظمت و جلالتِ شان کی جو بارگاہ ہے وہاں آنسو نہیں ہیں، اس لئے وہ ہمارے آنسوؤں کی بہت قدر کرتے ہیں کیوں کہ آنسو تو گنہگاربندوں کے نکلتے ہیں، فرشتے رونا نہیں جانتے، کیوں کہ ان کے پاس ندامت نہیں ہے، ان کو قرب عبادت حاصل ہے، قرب ندامت حاصل نہیں، قرب ندامت تو ہم گنہگاروں کو حاصل ہے۔ اس لیے مولانا شاہ محمد احمد الٰہ آبادی فرماتے تھے:

کبھی طاعتوں کا سرور ہے کبھی اعتراف قصور ہے
ہے مَلک کو جسکی نہیں خبر ، وہ حضور میرا حضور ہے

نیکی پر غرور
نیکی اور غرور میں بس بال برابر فرق ہے۔ نیکی اس وقت تک نیکی ہے جب تک آپ کو اس کا ادراک نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن جیسے ہی آپ کو نیکی کرنے کا احساس ہوا تو وہ تکبر ہوگیا۔ اور تکبر نیکی کو تباہ کر دیتا ہے- تکبر میں مبتلا شخص اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت و انعام کو اپنا ذاتی کمال و وصف (خوبی) سمجھنے لگتا ہے ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﮐﺮﺩﮦ ﻣﺎﻝ ﻭﺯﺭ ﮐﻮ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺮﻭﻣﻮﮞ ﮐﯽ ﻓﻼﺡ ﻭ ﺑﮩﺒﻮﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﺮﭺ ﮐﺮکے غرور کرتا ہے، یہ غرور نیکی کو برباد کر دیتا ہے، جب انسان مومن ہوگا تو اپنے ہر عمل کو اللہ کے مقررہ معیار کے عین مطابق بجالانے کے لئے جدوجہد کرے گا اور اپنی نیکیپر مغرور ہونے کی بجائے اس سے بھی متاثر ہوگا اور برائی سے بھی۔ حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

“الْمُؤْمِنُ الَّذِي إِذَا أَحْسَنَ اسْتَبْشَرَ وَ إِذَا أَسَاءَ اسْتَغْفَرَ”،

“مومن وہ ہے جو جب نیک کام کرے تو خوش ہو اور جب برائی کرے تو استغفار کرے”

مومن اس لیے اپنے نیک کام پر خوش ہوتا ہے کہ اسے اللہ تعالی نے توفیق دی ہے کہ وہ اس نیک کام کو بجالائے نہ کہ عُجب، ریا، غرور اور تکبر کی وجہ سے۔اگر وہ اس خوشی میں تکبر لے آئے تو اسکی نیکی، نیکی نہیں رہے گی بلکہ نیکی ختم ہو جائے گی-

Gunnah Par Nadamat Gunnah Ko Mitta Daiti Hai
Naiki Par Gharoor Naiki Ko Tabah Kar Daita Hai
(Hazrat Ali (R.A


اپنا تبصرہ بھیجیں