ضد ہے دیا جلانے کی


ہوئی ہے جب سے مخالف ہوا زمانے کی
مجھے بھی ضد سی ہوئی ہے دیا جلانے کی

ہر انسان کو زندگی میں بڑی چھوٹی ہر طرح کی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔بہادر انسان وہی ہے جو ان مشکل حالات میں بھی ثابت قدم رہے،ہمت،حوصلہ اور صبر سے کام لے۔کبھی کبھی ہم اتنے پریشان ہوتے ہیں کوئی راستہ ،کوئی منزل نظر نہیں آتی۔پھر اچانک سب اللّٰہ پاک کی طرف سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔ایک امید روشنی بن کر ہمیں وہ خوشی دیتی ہے جو ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔

میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اْجالا
مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا

جب کوئی انسان اپنے احساسات اور جذبات کو اپنی زبان سے ادا نہیں کرسکتا تو اس شخص کو ایک ایسا راستہ چْننا چاہیے جو اس کے احساسات کو الفاظ میں ڈھال کر تمام لوگوں تک پہنچائے ،یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب آپ حق کے راستے پر چلتے ہوں۔ وہ راستہ “قلم” ہے، جو آپ کو حق اور سچ کی آواز اٹھانے پر اکساتا ہے،لوگوں کی مخالفت کے بعد بھی آپ کو طاقت ور بناتا ہے۔بری اور منفی سوچوں سے نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ایک عام انسان معاشرے کا با عزت انسان اس وقت بنتا ہے اس کے اندر قوتِ ارادی مضبوط ہو، دل میں اللّٰہ پاک اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی محبت ہو،جذبہِ حب الوطنی ہو اور کچھ کر گزرنے کی لگن ہو تب ہی آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ تب طوفان، مخالف ہوائیں، لوگوں کے رویئے، خوف و خدشات اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے- کسی نے کیا خوب کہا ہے

ارادے جن کے پختہ ہوں،نظر جن کی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

Hui Hai Jab Say Mukhalif Hawa Zamany Ki
Mujhay Bhi Zid Si Hui Hai Diya Jalany Ki


اپنا تبصرہ بھیجیں