انسان کا ماضی کتنے ہی گناہوں سے بھرا ہو
اسکا مستقبل بلکل پاک ہے. اللہ توبہ کو پسند کرتا ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا کیا تو اپنی کتاب میں لکھا اور وہ نوشتہ اس کے پاس عرش پر رکھا ہوا ہے کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب ہوگی۔‘‘ (بخاری شریف) جیسا کہ اللہ کی کتاب قرآن مجید کا آغازبھی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے اس ایک جملہ میں اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر ہے، ایک رحمن، دوسری رحیم، گویا اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے آغاز میں جو تعارف کرایا ہے، وہ بہت رحمت والا، نہایت رحم کرنے والا ہے تاکہ کوئی گناہ گار اس سے مایوس ہو کر شیطان کی راہ پر گامزن رہنے پر مجبور نہ ہو۔ وہ گناہ گار بندہ اللہ کے عذاب کے ذکر کے باوجود نجات و بخشش کے لیے اُسی رحمن و رحیم کی چوکھٹ پر سر جھکائے کیونکہ وہ رحمن اور رحیم ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔ قریب ہے کہ تمھارا رب تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔(التحریم:8)
توبہ کا دروازہ اس وقت تک کھلا ہے جب تک کہ بندہ سکرات کے عالم میں نہ پہنچ جائے،اور جب تک کہ سو رج مغرب سے طلوع نہ ہو،،اور جان کنی کے وقت کی گئی توبہ قبول نہیں ہوگی، جیسا کہ مسند احمد میں ہے((ان اللہ یقبل توبۃ العبد ما لم یغرغر)) کہ اللہ تعالٰی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ اسے جان کنی کا وقت نہ آجائے، یعنی آخری سانس کے وقت کی گئی توبہ نا مقبول ہے۔