بڑھتی ہوئی جہالت


رہی تعلیم مشرق میں، نہ مغرب میں رہی غیرت
یہ جتنے پڑتے جاھتے ہیں، جہالت بڑتی جاتی ھے

تعلیم ۔۔۔؟ کیسی تعلیم۔۔؟ کیا تعلیم۔۔؟ کونسی تعلیم۔۔۔؟

یہ وہ سوال ہے جن کا جواب شاید کوئی نہیں دیتا۔ کیوں کہ دور جدیدمیں انسان جتنا تعلیم حاصل کرنے لگتاہے اتنا ہی اس کے اندر کا انسان اور انسانیت ختم ہونے لگتی ہے- ۔علامہ اقبال نے بہت بہترین انداز میں یہی بات بیان کی ہے۔

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراخت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئیگا الحاد بھی ساتھ

ایک دور تھا کہ جب دنیا میں جہالت عام تھی اور انسان جو کچھ بھی کرتا تھا اسے لگتا تھا کہ یہ ٹھیک ہے۔ لوگ اسے سمجھانا چاہتے تھے تو اسے اپنی بے عزتی محسوس ہوتی تھی اور ہر طرح کی برائی عام تھی بچیوں کو ذندہ دفن کر دینا عورتوں کو پاؤں کی جوتی سمجھنا ماں باپ کو بوجھ اور اپنے ساتھ رکھنا برا اور اپنی بے عزتی سمجھتے تھے۔ پھر ربِ کائنات نے اپنے محبوب بندے محمّد “حضرت محمّد صلی اللہ وسلّم” کو نبوت عطاء فرمائی تو سب سے پہلے علم اتارا اور نبیﷺ کو بھی علم سکھایا علم اتارنے کی سب سے بڑی وجہ صرف یہ تھی کہ تعلیم شعور دیتی ہے اور یہ تعلیم ہی تھی جس نے انسان کو اچھے برے صحیح غلط کا فرق پتہ چلایا ، لاشعور لوگوں کو شعور دیا ، انسان کو اسکے اچھے برے کی تمیز سکھائی، بچیوں کو زندہ دفن کرنا گناہ سمجھنے لگے، ماں باپ کی عزت ان پڑھ انسان کے دل میں پیدا کی احساس جگایا، عورت کو ایک عزت دار تبقاء سمجھے جانے لگا اور اسکو تمام حقوق دلائے، حضرت آدم علیہ سلام کو ملائکہ پر برتری عطاء فرمائی۔ صرف تعلیم کی وجہ سے جس کے معلّم کوئی اور نہیں میرے قائد میرے امام رحمت اللعالمین جناب حضرت محمّد ﷺ تھےجنہوں نے لوگوں کو جہالت کہ اس دور سے نکالا اور پھر ہر مسلمان مرد و عورت پر علم کا حصول فرض قرار دیا۔ اور آج تو سب الٹا ہی نظر آرہا ہے تعلیم حاصل کرنے سے انسان میں عقل و شعور پیدا ہوتا تھا آج جہالت ہوتی ہے جتنے پڑھتے جاتے ہیں جہالت بڑھتی جاتی ہے۔

“علم سے ملتا ہے شعور لا شعور کو بنتا ہے جانور بھی انسان،
تو نے سمجھا ہی نہیں مقصد حصولِ تعلیم ورنہ کہتے لوگ بھی تجھے پڑھا لکھا انسان”

ہمارے ہاں کالجر اور یونیورسٹیز ایک تعلیمی ادارے سے زیادہ ایک دکان کی نیت سے تعمیر کئے جاتے ہیں۔ تعلیمی نظام ایک منافع بخش کاروبار ہے جس میں تعلیم یافتہ لوگ اپنا کاروبار کررہے ہیں بورڈ امتحانات ہوں یا مقابلے کا امتحان جس کا جتنا بس چلتا ہے اتنا ہی وہ اس بہتی گنگا میں نہاتا ہے اسی لیئے پہلے تو علم حاصل کرنے سے انسان اللہ پاک کے قریب ہوتا تھا پر آج دور ہو رہا ہے۔ علم سے انسان میں نرمی اور احساس پیدا ہوتا تھا پر آج اتنے ہی سخت دل اور بے حس بن رہے ہیں۔پہلے علم حاصل کرنے سے طالبِ علم اپنے بڑوں کی اساتذہ کی عزّت و احترام کرتا تھا پر آج ان سے زبان درازی بد تمیزی کرتا ہے – تعلیم سے جو انسان میں انسانیت اپنائیت اور احساس پیدا ہوتا ہے وہ ہماری نسلیں بھول رہی ہیں تعلیم حاصل کرنے کہ باوجود وہ کفر کا راستہ بھی اپنا لیتے ہیں اپنے مذہب سے دور ہو جس تعلیم سے تو پھر کیا فائدہ ایسی تعلیم کا- اللہ پاک مجھے آپکو اور تمام پڑھنے والوں سننے والوں کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔۔

(آمین)

Rahi Taleem Mashriq Mein, Nah Maghrib Mein Rahi Ghairat
Yeh Jitnay Parhtay Jaty Hain, Jahalat Barhti Jati Hai


اپنا تبصرہ بھیجیں