مصیبتیں ہمیں بیدار کرنے کے لئے آتی ہیں
پریشان کرنے کے لئے نہیں
اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ زندگی میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ درحقیقت یہی خواہش پریشانیوں کوجنم دیتی ہے۔ کیا ایسا ہوسکتاہے کہ آپ کسی راستے سے گزریں اور اس میں گڑھے، موڑ، اسپیڈ بریکر نہ آئیں؟ جب ذرا سے راستے میں آپ اتنا کچھ برداشت کرسکتے ہیں تو زندگی میں پیش آنے والی خلافِ مزاج باتوں سے کیوں گھبرا جاتے ہیں؟ یہ کہنا بلکل درست ہو گا کہ
” مصیبتیں ہمیں بیدار کرنے کے لئے آتی ہیں پریشان کرنے کے لئے نہیں”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
مَنْ یُرِدِ اللہُ بِہِ خَیْرًا یُصِبْ مِنْہُ
اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کو مصیبت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
ابن اثیر کی ’’جامع الاصول‘‘ اور ’’النہایہ‘‘ جیسی شاہ کار کتابوں کی وجہ تصنیف یہ بنی کہ وہ چلنے پھرنے سے معذور تھے، لیکن قسمت کا رونا رونے کے بجائے انہوں ہمت و محنت سے کام لیا اور ان عظیم کتابوں کی تصنیف کے کام میں جُت گئے۔امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کو حاکم وقت نے ناراض ہوکر ایک کنوئیں میں بند کراودیا۔ انہوں نے اس فرصت کو غنیمت جانا اور سر پر ہاتھ رکھ کر رونے دھونے کے بجائے فقہی مسائل کی بے نظیر کتاب ’’المبسوط‘‘کی پندرہ جلدیں اپنے ان شاگروں کو زبانی لکھوا دیں جو کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ کر لکھتے جاتے تھے۔ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فتاوی قید و بند کی حالت میں لکھے۔
پس ثابت ہوا کہ اہل بصیرت حضرات دکھ درد اور مصائب میں مبتلا ہونے پر انہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرلیتے ہیں۔لہٰذا تمام مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ آپ ان میں گھرکر خود کو پریشان نہ کریں بلکہ انہیں دور کرنے یا ان کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے کوشاں رہیں۔