محمد ﷺ کے اوصاف


محمد ﷺ

زندگیاں بِیت گئیں اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف کا اِک باب بھی پورا نہ ہوا



حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اللہ کی طرف سے انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاء اکرام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کی درست شکل انسانوں کی جانب آخری بار پہنچانے کیلئے دنیا میں بھیجا۔ مکہ میں پیدا ہونے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر قرآن کی پہلی آیت چالیس برس کی عمرمیں نازل ہوئی۔ ان کا وصال تریسٹھ (63) سال کی عمر میں مدینہ میں ہوا، مکہ اور مدینہ دونوں شہر آج کے سعودی عرب میں حجاز کا حصہ ہیں۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے والد کا انتقال ان کی دنیا میں آمد سے قریبا چھ ماہ قبل ہو گیا تھا اور جب ان کی عمر چھ سال تھی تو ان کی والدہ حضرت آمنہ بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئیں۔

عربی زبان میں لفظ “محمد” کے معنی ہیں ‘جس کی تعریف کی گئی‘۔ یہ لفظ اپنی اصل حمد سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے تعریف کرنا۔ یہ نام ان کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول، خاتم النبیین، حضور اکرم، رحمت للعالمین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے القابات سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کے بہت نام و القاب ہیں۔ نبوت کے اظہار سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابوطالب کے ساتھ تجارت میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ اپنی سچائی ، دیانت داری اور شفاف کردار کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عرب قبائل میں صادق اور امین کے القاب سے پہچانے جانے لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا کثیر وقت مکہ سے باہر واقع ایک غار میں جا کر عبادت میں صرف کرتے تھے اس غار کو غار حرا کہا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام (فرشتہ) ظاہر ہوئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کا پیغام دیا۔

بلند اخلاق کی ایسی جیتی جاگتی، دائمی اور عالم گیر مثال کیا کوئی پیش کرسکتا ہے یا دنیا نے اپنے معرض وجود کے دن سے اب تک ایسی نظیر دیکھی ہے؟ ہرگز نہیں! یہ فضل خاص ہے جو اللہ رب العزت نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم کو عطا کیاتھا رسالت محمدی صلى اللہ عليہ وسلم کی بنیادی ذمہ داری قرآن کی تلاوت اوراس کی تعلیم تھی اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس کا عملی نمونہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ قرآن کو راہِ راست کی ضمانت قرار دیتا ہے ”بیشک یہ قرآن سیدھے راستے پر گامزن کرتا ہے“ (سورہ بنی اسرائیل) اور دوسری طرف آنحضور صلى اللہ عليہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو نمونہٴ زندگی بنالینے کی تلقین کرتا ہے کہ تمہارے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے مگر اس شخص کے لئے جو اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے اور کثرت سے ذکر خدا کرتاہے۔ (سورہ احزاب)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس قرآن کی تعلیم فرماتے اپنی عملی زندگی میں اس کو قابل تقلید بناکر پیش کرتے قرآن کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صاحب قرآن کی سیرت مبارکہ ہے پیغمبر اسلام کی سیرت واخلاق کی عظمت کے آگے بڑے بڑے حکماء اور معلّمین سرنگوں نظر آتے ہیں اور ان کے قول وعمل کی صداقت سے سند حاصل کیے بغیر دنیا کا کوئی انسان اخلاق کے اعتبار سے بڑا نہیں بن سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مثالی نمونہ بناکر دنیا میں بھیجا ہے اور لوگوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ، ہر دور، ہر حال میں اس نمونہ کے مطابق خود بھی بنیں اور دوسروں کو بنانے کی فکر کریں۔ گویا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق و سیرت ایک حیثیت سے عملی قرآن ہے۔



یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دنیائے بشریت کے لئے اسوئہ حسنہ اور الٰہی فیوض و ہدایات و احکام کا ایسا مفید وگہرا چشمہ ہے جو کبھی خشک ہونے والا نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نورخداوندی کا ایسا مرکز ہے جہاں تاریکی کا گذر نہیں اور مکروفریب کی تاریکیوں سے بھری ہوئی اس دنیا میں زندگی بسر کرنے والے لوگ اگر سیرت نبوی کو اپنے لئے نمونہٴ عمل بنالیں تو ان کی زندگی بھی غیرمعمولی نور سے منور و مالامال ہوجائے۔

اگر کوئی آپﷺ کی مکمل زندگی کا مطالعہ کرکے عمل پیرا ہوجائے تو بلاشبہ زندگی میں چارچاند لگ سکتے ہیں اور عمل کرنے والے دنیا و آخرت میں قابل رشک بن سکتی ہے کاش ہم رسول اللہﷺ کی سیرت مبارکہ پر عمل پیراہوجائیں۔

(MUHAMMAD (S.A.W
Zindgiyan Beet Gaen Aur Qalm Toot Gaye
Teray Osaaf Ka Ik Baab Bhi Pura Na Hua


اپنا تبصرہ بھیجیں