موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جاکر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں
فکر میں بچّوں کی کچھ اس طرح گھل جاتی ہے ماں
نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں
کب ضرورت ہو مری بچّے کو اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں
پہلے بچّوں کو کھلاتی ہے سکون اور چین سے
بعد میں جو کچھ بچا وہ شوق سے کھاتی ہے ماں
مانگتی ہی کچھ نہیں اپنے لئے اللہ سے
اپنے بچّوں کے لئے دامن کو پھیلا دیتی ہے ماں
پیار کہتے ہیں کسے اور مامتا کیا چیز ہے
کوئی ان بچّوں سے پوچھے جن کی مرجاتی ہے ماں
پھیر لیتے ہیں نظر جس وقت بیٹے اور بہو
اجنبی اپنے ہی گھر میں ہائے بن جاتی ہے ماں
ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہوجانے کے بعد
جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں
ضبط تو دیکھو کہ اتنی بے رخی کے باوجود
بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نہ پچھتاتی ہے ماں
سال بھر میں یا کبھی ہفتے میں جمعرات کو
زندگی بھر کا صلہ اک فاتحہ پاتی ہے ماں
اس نے دنیا کو دئے معصوم رہبر اس لئے
عظمتوں میں ثانیٔ قرآن کہلاتی ہے ماں
بعد مرجانے کے پھر بیٹے کی خدمت کے لئے
بھیس بیٹی کا بدل کر گھر میں آجاتی ہے ماں