گرد جستجو بھی گئی


اگزٹ

سفر تمام ہوا گرد جستجو بھی گئی
تری تلاش میں نکلی تو آرزو بھی گئی

اک انتظار سا تھا برف کے پگھلنے کا
پھر اس کے بعد تو امید آب جو بھی گئی

طلب کی راہ میں ایسے بھی موڑ آئے ہیں
کہ حرف و صوت گیا شوخیٔ گلو بھی گئی

یہ برگ و بار کہاں جاذب نظر ٹھہرے
تمہارے بعد تو پھولوں سے رنگ و بو بھی گئی

کچھ ایسے خاک اڑائی ہے دشت ہو میں جمالؔ
کہ جذب شوق بھی تفریق ما و تو بھی گئی

خالد جمال

Safar Tamam Hua Grd Justaju Bhi Gayi


اپنا تبصرہ بھیجیں