سفر تمام ہوا


ایسا نہیں تھا کہ میں نے کوشش نہیں کی
ایسا نہیں کہ میری محبت میں کوئی کمی تھی
میں نے دعا بھی مانگی اور بھیک بھی
میں نے سجدے بھی کیے اور پرہیز بھی
آنسو بھی بہائے
ہاتھ بھی جوڑے
دوست بھی بدلے
سوچ بھی بدلی
اورسب سے بڑھ کر
اس کی خاطر خود کو ہی بدل ڈالا
میں نے منت بھی کی غصہ بھی
جو ہو سکتا تھا کیا
میں نے اسے وہ وعدے بھی یاد دلائے جو اس نے کیے تھے
مگر جس کو جانا ہوتا ہے وہ جاتا ہے
لفظوں کی لاج کہاں رکھتا ہے
یہ منت یہ سماجت
یہ دعائیں یہ بھیک
سب بیکار جاتی ہے
میں نے تو محبت بھی اتنی کی تھی
آج اس مقام پر ہوں
نہ اُس کی طلب ہے اور نہ جینے کی تمنا۔۔۔

سفر تمام ہوا گرد جستجو بھی گئی

سفر تمام ہوا

Safar Tamam Hua


اپنا تبصرہ بھیجیں