وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے
گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے
محسن نقوی
اپنے بچوں کو میں باتوں میں لگا لیتی ہوں
جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا
بچوں کی ایک بڑی تعداد بد ترین مشقت کا شکار ہے،جس عمر میں عام بچے کھلونوں ،کارٹونز چاکلیٹ اور دیگر چیزوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن نہ کھلونوں کے لیے کوئی رقم نہ ٹیوشن کے لیے مالی وسائل، اس عمر کے بچے مشقت کا شکار ہیں۔ ایک ایسا ہی بچہ بڑے کرب سے کہتا ہے کہ جب میں کھیلنے کے لئے گرائونڈ میں جاتا ہوں تو میری حالت زار دیکھ کر لوگ یہ کہہ بھگا دیتے کہ یہ بچہ گندا ہے، یہ سن کر میرا دل کٹ سا جاتا ہے۔ ہوٹلوں کے باہر ایسے درجنوں بچے دیکھے جا سکتے ہیں جو کسی سیٹھ کے منتظر ہوتے ہیں کہ وہ انہیں آ کر کھانا کھلا دے گا، کتنے ہی گھروں کی حالت اتنی ابتر ہے کہ باہر گلی میں غبارے اور کھلونے بیچنے والا آ جائے تو مائوں کے دل پریشان ہو جاتے ہیں، اس لئے کہ ان کے پاس بچوں کو یہ چیزیں خرید کر دینے کے لئے پیسے ہی نہیں ہوتے۔ایسے ہی ایک دکھی ماں کہتی ہے
کھلونے بیچنے والا گلی میں آ گیا ہے
خداوند، میرے بچوں کو پھر نیند آ جائے