شاہ است حسین، بادشاہ است حسین
دین است حسین، دین پناہ است حسین
شاہ بھی حسین ہے، بادشاہ بھی حسین ہے
دین بھی حسین ہے، دین کی پناہ بھی حسین ہے
Ruler is Hussain, Emperor is Hussain
Faith is Hussain , guardian of faith is Hussain
شاہ بھی حسین ہے، بادشاہ بھی حسین ہے-
نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے اسلام کو ملوکیت سے خطرہ تھا۔ اس اسلام کو حسین نے پناہ دی۔ یہ بیشتر لوگوں کا دین ہے۔ ان کے لیے حسین دین پناہ ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنھیں ارکان اسلام، فقہ اور شریعت کا کچھ علم نہیں۔ وہ فقط حسین حسین کرتے ہیں۔ ان کا دین حسین ہے۔
سر داد، نداد دست درِ دست یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین
سر دے دیا، پر ہاتھ یزید کے ہاتھ میں نہ دیا
حق تو یہ ہے کہ لا الٰہ کی بنیاد حسین ہے
Offered his head and not the hand to Yazid
Truly, the mirror of faith is Hussain
سر دے دیا یعنی قتل ہونا قبول کرلیا لیکن ہاتھ نہیں دیا یعنی یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی۔
نبی کریم ﷺ نے سب کی زبان سے اللہ کا اقرار کروالیا تھا لیکن کچھ منافق ایسے تھے جن کی آستینوں میں بُت موجود رہے۔ ان کے دل لا الہ کہنے کو تیار نہیں تھے۔ حسین نے ایک زمینی خدا کا انکار کرکے لا الہ کی بنیاد مضبوط کی۔
خواجہ معین الدین چشتی
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں بہت سی شہادتیں ہوئیں اور آپ سے قبل امم سابقہ میں بھی بڑی شہادتیں ہوئیں مگر ہمیشہ تاریخ کا قاعدہ ہے جب شہادت کا سانحہ وقوع پذیر ہوجائے تو پھر اس کی شہرت ہوتی ہے لیکن سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک ایسی عظیم شہادت ہے کہ اس کی شہرت آپ کے بچپن میں ہی ہوگئی تھی۔ یعنی 53، 54 سال شہادت کی شہرت لوگوں کی زبان پر رہی۔ اس کی کوئی مثال کسی دوسری شہادت میں نہیں ملتی۔
حدیث مبارک ہے جس کو خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز مدینہ طیبہ میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے اپنی گود میں دائیں طرف سیدنا امام حسین علیہ السلام کو بٹھا رکھا ہے اور اپنی بائیں طرف اپنے صاحبزادے ابراہیم علیہ السلام کو بٹھا رکھا تھا۔ حسین و ابراہیم آقا علیہ السلام کے دو شہزادے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے پیار فرمارہے تھے۔ اتنے میں حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یارسول اللہ! اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو سلام بھیجا ہے اور سلام کے بعد اللہ رب العزت نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ میرے محبوب کو پیغام دو۔ یہ دونوں بیٹے آپ کے پاس اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ ایک کو دوسرے کے بدلے فدیہ کردو۔
حدیث پاک میں ہے حضور علیہ السلام نے باری باری دونوں کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر ابراہیم علیہ السلام جاتے ہیں تو رونے والا صرف میں ہوں گا اور اگر حسین علیہ السلام جائے تو میں بھی روؤں گا اور میری فاطمہ علیہا السلام بھی روئے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے رونے کی تو خیر ہے لیکن مجھ سے فاطمہ علیہا السلام کا رونا دیکھا نہیں جائے گا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت فاطمہ علیہا السلام سے بڑا پیار تھا۔ چونکہ اللہ کا امر تھا۔ جبریل امین حاضر ہوئے۔ اے محبوب جواب دیں کس کو رکھنا ہے کس کو ہمیں دینا ہے فرمایا میں ابراہیم علیہ السلام کو فدیہ کرتا ہوں حسین علیہ السلام کا۔ مولا حسین علیہ السلام میرے پاس چھوڑ دو۔ میرا ابراہیم علیہ السلام لے لو۔
حدیث مبارک میں ہے کہ جب تک آقا علیہ السلام کا وصال نہیں ہوا تھا۔ تب تک حسین علیہ السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتے یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادھر جاتے جہاں حسین علیہ السلام کھیل رہے ہوتے ان کو اٹھاتے اور چومتے تو ایک جملہ اکثر کہتے: ’’حسین علیہ السلام میں نے تجھے ابراہیم علیہ السلام دے کر لیا تھا‘‘۔ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آقا علیہ السلام کی گود میں امام حسین علیہ السلام شہزادے کھیل رہے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدسہ سے آنسو رواں تھے۔ ہم نے پوچھا یارسول اللہ! کیا ہوا؟ اچانک آپ رونے لگ گئے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا ! حضرت جبریل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ یہ میرا بیٹا حسین علیہ السلام جس کو میں نے ابراہیم علیہ السلام دے کر لیا تھا، میرے بعد یہ بھی شہید کردیا جائے گا، عراق کی سرزمین پر اس میدان میں جس کا نام کربلا ہے۔ شہزادے حسین علیہ السلام کو یہاں شہید کیا جائے گا۔ اس مقام شہادت کی مٹی دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا دکھا دو۔ جبرئیل گئے اور مٹی لاکر دکھادی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔ (البدایه والنهایه، 8: 196-200)
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب میں اندر آئی تو وہ مٹی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں تھی اور اس مٹی کو چوم رہے تھے۔ آپ نے مٹی مجھے دے دی اور فرمایا ’’یہ مٹی رکھ لو۔ جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا اس دن میرا حسین علیہ السلام شہید ہوگیا۔
شہادت کی جگہ (مقتل، مشہد) ملک عراق اور سرزمین کربلا بیان کردی گئی تھی۔ سیدنا مولا علی شیر خدا علیہ السلام اپنے زمانے میں لشکر کے ساتھ دریائے فرات سے گزرے تو میدان کربلا پر رک گئے۔ آپ علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
ههنا مناخ رکابهم وموضع رحالهم. (الخصائص الکبریٰ، 2: 162)
لوگو یہ وہ جگہ ہے پہچان لو کہ یہاں حضور علیہ السلام کی اہل بیت کے کجاوے اتریں گے۔ وہ خیمہ زن ہوں گے۔ اونٹنیوں سے اونٹنیاں بیٹھیں گی ان کے خون بہیں گے یہاں خون بہے گا آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔ اس پر زمین و آسمان خون کے آنسو روئیں گے۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
بہت سے ذہنوں میں خیال آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کی مدد کرتے ہیں لیکن اپنے نواسے کی نہیں کرسکے۔ یہ نا سمجھی اور لاعلمی ہے۔ پہلے مدد کا معنی تعین کرنا ہوگا کہ کیا حسین علیہ السلام کو اس مدد کی ضرورت تھی کہ یزیدیوں سے بچا کر زندہ سلامت واپس مدینہ میں چلے جائیں اور شہادت سے محروم ہوجائیں، وہ جو پچاس برس سے شہادت کے منتظر تھے، ملائکہ منتظر تھے۔ تاریخ میں اس شہادت سے اسلام کو زندہ کیا جانا تھا۔ اسلام کی مدد ہونے والی تھی۔ تو کیا یہ حسین علیہ السلام کی مدد تھی کہ وہ شہادت سے بچ جائیں یا صبر و رضا کے ساتھ شہادت کی وادی سے گزر جائیں؟ اس نکتہ کو ایک مثال کے ذریعے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک روزہ دار ہے اس نے روزہ رکھا ہے، گرمیوں کے دن ہیں، پچھلا ٹائم ہوگیا ہے، پیاس سے زبان، حلق خشک ہیں۔ بالکل افطار کا وقت قریب ہے، اس کی بری حالت ہے۔ پانی پلانا مدد ہے یا روزہ مکمل کروانا مدد ہے۔ روزہ دار کو کہیں گے سارا دن گزر گیا ہے، اب چند منٹ باقی رہ گئے ہیں۔ صبر کرو، روزہ افطار کرو گے تو اس کا اجر پاؤ گے پس روزہ دار کی مدد روزہ توڑنا نہیں بلکہ مکمل کرنا ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں فلسفہ شہادت امام حسین علیہ السلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین