کاش تم سمجھ سکتے


تم سے پہلے جو شخص یہاں تخت نشین تھا
اسکو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقین تھا

ہر عروج کو زوال ہے۔ جو سورج طلوع ہوتا ہے اسے غروب بھی ہونا ہوتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ

’’جس چیز کو زوال ہے میں اس کو خدا نہیں مان سکتا‘‘۔

میں یہ کر سکتا ہوں . . . میں وہ کر سکتا ہوں

اگر میں چاہتا . . . اگر میں نہ چاہتا

میں نے یہ کر دیا . . . اب میں یہ کر کے دکھا دونگا

میں سب کچھ کر سکتا ہوں . . . میں . . . میں . . . میں . . . اور بس میں !!!

اس نے کہا میں خدا ہوں مجھے سجدہ کرو۔ اللہ تعالٰی نے مچھروں کا ایک دروازہ کھول دیا، تھوڑی دیر میں ان کا خون تو کیا ان کا گوشت پوست سب کھا گئی اور سارے کے سارے یہیں ہلاک ہوگئے، ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا، انہی مچھروں میں سے ایک نمرود کے نتھنے میں گھس گیا اور چارسو سال تک اس کا دماغ چاٹتا رہا ایسے عذاب میں وہ رہا کہ اس سے موت ہزاروں درجے بہتر تھی اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا، ہتھوڑوں سے کچلواتا تھا، یونہی رینگ رینگ کر بدنصیب نے ذلت آمیز موت پائی۔

پھر ایک نے پھر دعوی کیا میں خدا ہوں سجدہ کرو۔ اسی کے گھر میں موسیٰ پیدا کر دیا گیا، جس نے اس کی خدائی کی ایسی کی تیسی کر دی ۔ آج وہ مصر کے عجائب گھر میں تڑا مڑا پڑا ھے لوگ ٹکٹ خرید کر اسے چڑیا گھر کے بندر کی طرح دیکھنے آتے ہیں۔

پھر ایک نے جنت بنائی ۔ وہ جنت کی طرف جا رہا تھا کہ ایک اجنبی شخص کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ اس نے پوچھا ”تُو کون ہے؟“
اس نے کہا ”میں ملک الموت ہوں۔“
پوچھا ”کیوں آئے ہو؟“
اس نے کہا”تیری جان لینے۔“ شداد نے کہا مجھ کو اتنی مہلت دے کہ میں اپنی بنائی ہوئی جنت کو دیکھ لوں۔ جواب ملا ”مجھ کو حکم نہیں۔“ کہا، چلو اس قدر ہی فرصت دے دو کہ گھوڑے پر سے اتر آؤں۔ جواب ملا ”اس کی بھی اجازت نہیں۔“ چناں چہ ابھی شداد کا ایک پاؤں رکاب میں اور دوسرا چوکھٹ پر ہی تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی۔ اسی جنت کے دروازے پر اسے منہ کے بل گرا کر خاک میں ملا دیا گیا۔

پھر ایک نے اپنا کعبہ بنایا ۔ اور اصل کعبہ گرانے چلا تو قہر الٰہی ابابیلوں کی شکل میں نمودار ہوا اور ننھے ننھے پرندے جھنڈ کے جھنڈ جن کی چونچ اور پنجوں میں تین تین کنکریاں تھیں سمندر کی جانب سے حرم کعبہ کی طرف آنے لگے۔ ابابیلوں کے ان لشکروں نے ابرہہ کی فوجوں پر اس زور وشور سے سنگ باری شروع کر دی ابرہہ کی فوج کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں بچا اور سب کے سب ابرہہ اور اس کے ہاتھیوں سمیت اس طرح ہلاک و برباد ہو گئے ابابیل جیسے کمزور ترین پرندے اسے ہاتھیوں سمیت بھوسہ بنا دیا گیا۔

میں . . . میں . . . میں . . . اور بس میں !!!

فرعون آج بھی ہیں، نمرود آج بھی ہیں، شداد آج بھی ہیں، علی الااعلان نہیں لیکن دعوے ان سے بھی بڑے، ھمارا خاندان تو صرف حکومت کرنے کیلئے پیدا ھوا، گردنوں میں سریے باتوں میں دنیا جہان کا غرور، یہ خدائی دعوے، یہ فرعونیت، خاک کا بنا ہوا پانچ چھ فٹ کا مٹی کا ڈھیر کیوں بھول جاتا ہے کہ چھ فٹ کی قبر میں لاکھوں ایکڑ نہیں سما سکتے۔ اور آج تک کسی کی قبر لاکھوں ایکڑ میں نہیں بنی۔

کاش کہ تم سمجھ سکتے کہ زمینی خداؤں کو مچھر اور ابابیل جیسی حقیر چیزوں سے مروایا جاتا ہے۔

Kaash Kay Tum Samajh Saktay Kay
Zameeni Khudaoon Ko Mazchar Aur Ababeel Jaisi
Haqeer Cheezoon Say Marwaya Jata Hai


اپنا تبصرہ بھیجیں