وہ شہزادیوں جیسی تھی
سب سے حسین شاہزادی تھی
اتنی حسین کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے
آنکھیں خیرہ ہو جاتیں
اس نے ایک خوبصورت غلام سے شادی کی تھی
اور اسے آزاد نہیں کیا تھا
اس نے لوگوں کی خدمت کی تھی پورے دل سے
اس نے دشمنی مول لی سلطان سے غلام کے لیے
اور دوست بنائے عام لوگوں میں
اور بالآخر اس نے خود کو آزاد کر دیا
ناکردہ گناہوں کے بوجھ سے
ماضی کے غم سے
مستقبل کے غم سے
وہ اس حال میں جائے گی اس دنیا سے
کہ وہ تیار ہے ہر الزام کا مقابلہ کرنے کے لیے
بہادری سے…..