ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے


بات پھولوں کی سنا کرتے تھے
ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے

مشعلیں لے کے تمہارے غم کی
ہم اندھیروں میں چلا کرتے تھے

بات پھولوں

اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

ترکِ احساسِ محبت مشکل
ہاں مگر اہل وفا کرتے تھے

بکھری بکھری ہوئی زلفوں والے
قافلے روک لیا کرتے تھے

آج گلشن میں شگوفے ساغر
شکوۂ باد صبا کرتے تھے

ساغر صدیقی

HUM KABHI SHAIR KAHA KERTE THY


اپنا تبصرہ بھیجیں