تم غلام ابن غلام ابن غلام ابن غلام ہو!


ہم ذندہ قوم ہیں؟
کیا ذندہ قومیں ایسی ہوتی ہیں؟
ذندہ نہیں مردار ترین قوم ہیں!

ذندہ قومیں یوں بے حس نہیں ہوتی!
ہم غلام ابن غلام رہ کر غلامی کے عادی ہوچکے ہیں!
ہم غلاموں کے لیے خلیل جبران نے خوب کہا تھا

’’تم ایسے غلام ہو کہ جب زمانہ تمہاری زنگ آلودہ بیڑیاں اتار کر چمکدار بیڑیاں پہنا دیتا ہے تو تم اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہو‘‘

بند کرو یہ منافقت کا کھیل، تم غلام ابن غلام ابن غلام ابن غلام ہو!

غلام

سنتے تھےکہ انصاف کا یہ عالم ہوگا کہ حاکم وقت رعایا کے سامنے جواب دہ ہوگ اکہ اس نے رعایا کا پیسہ اپنی خواہشات کو پوری کرنے میں سرف تو نہیں کردیا ۔ کوئی بھی غریب بھوک افلاس کے ہاتھوں مجبور ہوکر پیالہ اجل نہیں پیئے گا، ہر طرف انصاف کا بول بالا ہوگا، سب سے پہلے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ قوم کے چوروں سے واپس لیا جائے گا، عہد صحابہ ؓ کی یاد تازہ ہوگی ۔امیر کو غریب پر فضیلت حاصل نہیں ہوگی، غریب بھوک افلاس سے نہیں مرے گا، غریبوں کو انکے بنیادی حقوق روٹی، کپڑا اور مکان ملے گا، غریب کا بچہ ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر نہیں مرے گا، بے روزگاروں کو نوکریاں ملیں گی، ادارے رشوت نہیں کھائیں گے، ذاتی امتیازات کا خاتمہ ہو جائے گا، قانون کی بالا دستی ہوگی، کسی جاگیردار مجرم کے لیے کوئی رعایت نہیں ہوگی، ہر طرف خوشحالی ہوگی، ہر شخص آزاد ہوگا……

کیا ؟؟؟؟؟

کیسی آزادی ؟؟؟؟؟

کونسی آزادی بھئی ؟؟؟؟؟

وہ آزادی جو رات کو فٹ پاتھوں پر پڑی مخلوق کو دیکھ کر نظر آتی ہے؟

وہ آزادی جو اس ملک کے سرکاری ہسپتالوں، سکولوں، اداروں، تھانوں، کچہریوں میں دیکھنے کو ملتی ہے؟

نسل در نسل پاکستانی غریب عوام کے احساسات کا قتل کرنے والوں کے لیے ایسا ہسپتال بھی نہیں کہ وہاں پر ان کا علاج ممکن ہوسکے؟

روٹی نھیں ہے، ہسپتالوں میں فرش پرعلاج ہو رہا ہے، تعلیم نھیں ہے، انصاف نھیں ہے، نوکریاں نھیں ہیں، بم دھماکوں میں لوگ مر رہے ہیں، جاگیردار کے جوتے کا ٹھڈا ہوئے ہیں- ہم نے ایسی تبدیلی کی تو آرزو نہیں کی تھی کہ غریب کے لیے جینا تو دور کی بات مرنا بھی مشکل ہوجائے۔ جوکہ ہوچکا ہے….!!!! غریبوں کا تو مرنا بھی آسان نہیں رہا۔ ایک خبر میں نے پڑھی کہ نئی قبروں پر ایک ہزار سے پندرہ سو روپے ٹیکس….!!!!

ہم کو مت بھیک میں دے کرتے امیروں والے
ہم پہ جچتے ہیں فقط بھیس فقیروں والے
ہاں یہی لوگ غریبوں کا لہُو چُوستے ہیں
جِن کے ماتھے پہ سجے تاج ہیں ہیروں والے

اور ایک ہم ہیں اچھے دنوں کی امید پر ہم جیئے جاتے ہیں۔ پیوستہ رہ شجر سے امید رکھ کیونکہ فرمان الٰہی ہے، ہر تنگی کے بعد آسانی ہے- ہمارے قائد، مسیحا انسانیت حضرت محمد ؐ ہیں، نبی رحمتؐ ایک عظیم فاتح کی حیثیت سے مدینہ میں داخل ہوتے ہیں اور چیونٹی کو بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ ہم پاکستان کو عملی طور ریاست مدینہؐ ثانی دیکھنا چاہتے ہیں۔

Tum Ghulaam
Ibn e Ghulaam
Ibn e Ghulaam
Ibn e Ghulaam Ho


تم غلام ابن غلام ابن غلام ابن غلام ہو!” ایک تبصرہ

  1. اچانک جب یہ تحریر نظروں کے سامنے آئی تو یوں لگا
    کہ جیسے یہاں کوئی اور بھی میرا ہم خیال ہے
    کہ جیسے کسی اور کو بھی اس چمن کے اجڑ جانے کا ادراک ہے
    ہم واقعی غلام ابنِ غلام ابنِ غلام ہیں
    اور ایسے غلام ہیں کہ جب زمانہ زنگ آلود بیڑیاں اتار کر چمکدار بیڑیاں پہنا دیتا ہے تو سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد ہو گئے
    یہی کچھ ہوا تھا 1947 میں ، بیڑیاں تبدیل ہوئیں تھیں بس
    We are living in ” MES” Modern Era Slavery
    جدید دور کی غلامی جس میں غلام کو احساس ہی نہیں کہ وہ غلام ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں