وہ حضرات اس پوسٹ سے بےشک دور رہیں جن کو لگتا ہے تھپڑ پڑنے سے کوئ فرق نہیں پڑ جاتا۔
اگر یہ تھپڑ اتنا غیر اہم ہوتا نا تو ہمارے نبی صل اللہ کبھی بھی بچوں پر رحم کا نہ کہتے۔ ہمیں ان کی تعلیمات میں کم از ایک تھپڑ تو مل جاتا جو انہوں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کی تربیت میں مارا ہوتا۔ اور نماز جیسے فرض کے لیے کم از کم تھپڑوں کی اجازت تو ہوتی۔
یہ بات کہہ کر والدین کو گلٹ میں ڈال دینا مقصود نہیں میں نے بھی اپنے بڑے بیٹے کو مارا ہوا ہے اور اس کا اثر میں ابھی دیکھ رہی ہوں جو میرے باقی دونوں بچوں میں نہیں نظر آتا مجھے۔ اس لیے مار دینا شاید اتنا نقصان دہ نہ ہو جتنا مارنے کے بعد اس بات کا احساس تک نہ ہونا نقصان دہ ہو جاتا ہے۔اور سب سے بڑھ کر اس بات کو ثابت کرنے پر لگ جاتے ہیں کہ ہمیں بھی تھپڑ پڑا تھا ہمیں کچھ نہیں ہوا۔۔۔آپ اگر اپنا انر ورک کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ آپ آج کیا ہیں اور کیوں ہیں۔مقصد والدین کو الزام دینا نہیں ہے مقصد یہ ہے کہ غلط طریقوں کی حمایت کر کے کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنیں۔اور تب آپ بالغ نہیں تھے اب آپ ہیں۔۔۔تفکر اور تدبر کر لیں فائدہ میں رہیں گے ان شاءاللہ۔
کبھی سوچا ہے والدین ایک ہی ہوتے ہیں تو اولاد مختلف کیوں نکلتی ہے؟
ہمیشہ فطرت علیحدہ نہیں ہوا کرتی ہے۔۔۔اور بھی عوامل ہوا کرتے ہیں جو ہر بچے پر مختلف طریقے سے اثرانداز ہوتے ہیں۔
ہمارے پاس اور کوئ جواب نہیں بن پاتا تو یہ کہہ کر اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں ہر ایک کا مزاج الگ ہوتا ہے۔
حالانکہ ہم تو وہ ہیں جو فطرت کے اختلاف کا پاس تک رکھنا نہیں جانتے۔ہم تو چاہتے ہیں میں نے جو اصول لاگو کر دیا وہ اوپر سے نیچے ہر بچہ فالو کرے۔۔کیا کریں صاحب قصور ہمارا بھی نہیں ہمارے سکولنگ سسٹم نے ہمارے کچے زہنوں میں ایک یہ ہی تو بیج بویا تھا کہ مچھلی ہو یا ہاتھی سب کو پیپر پاس کرنا ہی ہے۔۔۔
اب آتے ہیں ان عوامل کی طرف جو بچے کی شخصیت بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
▪︎والدین کی اپنی صحت۔
▪︎ہر بچے کی دفعہ والدین کے اردگرد کا ماحول۔
▪︎والدین کی اپنی ذہنی حالت۔
▪︎سکول کے دوست۔
▪︎اساتذہ۔
▪︎برتھ آرڈر۔
▪︎شکل و صورت
▪︎والدین کا مختلف برتاو اپنے subconscious patterns کی وجہ سے۔
یہ آخری پوائنٹ بہت اہم ہے اس حوالے سے کہ ہم اپنے patterns کو اگر نہیں سمجھیں گے تو ہم اپنی اولادوں کے ساتھ نا انصافی کریں گے=