توبہ کے معنی لوٹنے کے ہیں


توبہ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے (جبکہ وہ اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے) اُس سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جتنی خوشی تم میں سے کسی مسافر کو اپنے اُس (سواری کے ) اونٹ کے مل جانے سے ہوتی ہے جس پر وہ چٹیل بیابان میں سفر کررہا ہو، اُسی پر اس کے کھانے پینے کا سامان بندھا ہو اور (اتفاق سے) وہ اونٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر بھاگ جائے اور وہ (اس کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے) مایوس ہوجائے اور اسی مایوسی کے عالم میں (تھکا ہارا بھوکا پیاسا) کسی درخت کے سایہ کے نیچے لیٹ جائے اور اسی حالت میں (اس کی آنکھ لگ جائے اور جب آنکھ کھلے تو) اچانک اس اونٹ کو اپنے پاس کھڑا ہوا پائے اور (جلدی سے) اس کی نکیل پکڑ لے اور خوشی کے جوش میں (زبان اس کے قابو میں نہ رہے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے- صحیح مسلم

بندہ کی توبہ سے اللہ تعالیٰ کی خوشی بھی اُس کی شان ربوبیت اور رحمت کا تقاضہ ہے کہ اس کا ایک بھٹکا ہوا بندہ ، اپنی نادانی سے شیطان کے فریب میں آکر اس کی عبادت کی راہ سے بھٹک گیا تھا ، راہ راست پر آگیا۔ لیکن بندہ کی توبہ واستغفار سے اللہ تعالیٰ کی شان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ وہ بڑا ہے اور بڑا ہی رہے گا۔ وہ بے نیاز ہے، اسے ہماری ضرورت نہیں ہے لیکن ہم اس کے محتاج ہیں۔ اس کی کوئی نظیر نہیں ہے، وہ پوری کائنات کا خالق ومالک ورازق ہے۔ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرنے کا فائدہ ہمیں ہی پہنچتا ہے ، جس طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر اس کا نقصان بھی ہمیں ہی پہنچتا ہے۔

قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اگر گناہ کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے مثلاً نماز وروزہ کی ادائیگی میں کوتاہی یا ان اعمال کو کرنا جن سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مثلاً شراب پینا اور زنا کرنا، تو توبہ کے لئے تین شرطیں ہیں: ۱) گناہ کو چھوڑنا۔ ۲) کئے گئے گناہ پر شرمندہ ہونا۔ ۳) آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرنا۔ لیکن اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو ان تین شرطوں کے علاوہ مزید ایک اہم شرط ضروری ہے کہ پہلے بندہ سے معاملہ صاف کیا جائے، یعنی اگر اس کا حق ہے تو وہ ادا کیا جائے یا اس سے معافی طلب کی جائے۔ غرضیکہ بندوں کے حقوق کے متعلق کل قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا اصول وضابطہ بیان کردیا کہ پہلے بندہ کا حق ادا کیا جائے یا اس سے معافی طلب کی جائے، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کے لئے رجوع کیا جائے-

توبہ کے معنی لوٹنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے فرمانبرداری کی طرف لوٹنا شریعت اسلامیہ میں توبہ کہلاتا ہے۔ حقوق اللہ میں کوتاہی کی صورت میں توبہ کے صحیح ہونے کے لئے تین شرطیں اور بندے کے حقوق میں کوتاہی کرنے پر توبہ کے لئے چار شرطیں ضروری ہیں۔ لہٰذا ہمیں جس طرح اللہ کے حقوق کو مکمل طور پر ادا کرنا چاہئے ، اسی طرح بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں ادنیٰ سی کوتاہی سے بھی بچنا چاہئے۔ بندوں کے حقوق میں کوتاہی کرنے پر کل قیامت کے دن محسن انسانیت ﷺکے فرمان کے مطابق اعمال کے ذریعہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی جائے گی، جیساکہ فرمان رسول ﷺ ہے: میری امت کا مفلس شخص وہ ہے جو قیامت کے دن بہت سی نماز، روزہ، زکوٰۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا، مگر حال یہ ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔ پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو (ان حقوق کے بقدر) حق داروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ مسلم

اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی بار بار ہمیں توبہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ اختصار کے پیش نظر صرف دو آیات پیش ہیں:اے مؤمنو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔ (سورۃ النور ۳۱) اے ایمان والو! اللہ کے سامنے سچی توبہ کرو۔ بہت ممکن ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے گناہ معاف کرکے تمہیں جنت میں داخل کردے۔ (سورۃالتحریم ۸) پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ توبہ کرنے والے کامیاب ہیں، دوسری آیت میں ارشاد فرمایا کہ سچی توبہ کرنے والوں کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں اور ان کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔

بڑے بڑے گناہوں سے مستقل توبہ کرنا ضروری ہے، اگرچہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کی مغفرت کے لئے استغفار پڑھنا بھی کافی ہے۔ اسی لئے علماء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ ہمیں ہر نماز کے بعد اور صبح وشام استغفار پڑھنا چاہئے۔ انسان کے ساتھ شیطان، اپنا نفس اور معاشرہ لگا ہوا ہے، جس کی وجہ سے انسان گناہ سے سچی توبہ کرنے کے باوجود اس گناہ کو دوبارہ کر بیٹھتا ہے، لیکن انسان کو ہمیشہ اپنے گناہوں پر شرمندہ ہوکر آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ توبہ کرتے رہنا چاہئے اور اس بات کی دن رات فکر کرنی چاہئے کہ فلاں گناہ سے کیسے نجات حاصل کی جائے، جیسا کہ مذکورہ بالا واقعہ میں ۹۹ قتل کرنے کے بعد وہ شخص سچے دل سے توبہ کرنا چاہتا تھا۔ اگر گناہ سے بچنے کا پختہ ارادہ ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس شخص کو گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

TOBA K MANI LOTNE K HAIN


اپنا تبصرہ بھیجیں