بڑا عہدہ ، بڑا دھوکہ


ہر حال میں شکر الله کا!!!!!

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں ۔ انسان کو طاقت اور عہدے کا لالچ کیوں ہے۔؟ کیوں انسان چاہتا ہے کہ میں بڑے عہدے پر کام کروں ۔ ؟ لوگ اگے پیچھے چلے ۔ میرے پاس پاور ہو ۔ اور میرے ایک اشارے سے لوگ جو میں چاہتا ہوں۔ وہ کریں میرے پاس سیکرٹریوں کا فوج ہو۔ جو میں کرو وہ سب وہ لکھے۔ میرا ایک شاندار افس ہو۔ جو شہر گاوں یا پینڈ میں سب سے زیادہ خوبصورت اور ہوادار ہو۔ میرے انے جانے کا کوئی وقت مقرر نہ ہو ۔ میں اپنے ڈیوٹی کے علاوہ اپنے اختیارات کو استعمال کرکے کوئی بھی کام یا خدمت کرو۔ کسی بھی وقت میں اپنے افسر اپنے بادشاہ کے ساتھ رابطہ کرو۔ تو وہ لبیک کہے ۔ میں تھوڑا کام کرو اور دام بہت زیادہ لو۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔

میرے ناقص سے مشاہدے میں ہر کوئی یہ چاہتا ہے۔ اس کا خواب دیکھتا ہے۔ لیکن سوچتا کوئی نہیں۔۔کہ میں کون ہو۔ میں کس عہدے پر فائز ہو۔ اور میرا دام کتنا ہے۔ آپ لوگوں نے کبھی سوچا ہے ایسا ؟

اب اگر ہم سب کی یہ خواہش ہے اور ہم سب اپنے رب سے یہ مانگتے ہیں ۔ تو کیوں رب نہیں دیتا۔۔۔۔۔کیونکہ وہ اشفاق احمد صاحب کا ایک قول ہے کہ کبھی کبھی ہمارا رب ہمیں پھولوں کا گلدستہ عنایت کر رہا ہوتا ہے ۔ اور ہم ایک پھول لینے کے بضد ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔

کبھی وقت ملے تو ان باتوں پر سوچو ۔ بہت اچھا جواب ملتا ہے۔ کل ایک گروپ میں ایک پوسٹ دیکھی ہمارے ایک بھائی نے ، ممکن ہے مزاق کے لئے ایک پوسٹ شیئر کی تھی کہ آج ہوسکتا ہے یہ میری زندگی کی آخری رات ہو۔ بات اس نے بڑے پتے کے کی تھی ۔ لیکن میرے جیسے نا سمجھ انسان ان کو نصیحت کر رہے تھے۔ میں نے پوسٹ دیکھی اور دانشور بن کے اسے مشورے دیتا رہا ۔ لیکن دل مچل رہا تھا۔ دماغ سن ہونے کے قریب تھا ۔ دل چا رہا تھا کہ بار بار اسے دھراو۔ بار بار اس پے سوچو اور بار بار استغفار پڑھتا رہو۔ اس نے بات بہت حقیقت کی ، کی تھی ۔ میں سوچ رہا تھا ہوسکتا ہے ہم صبح کا سورج نہ دیکھ پائے ۔ لیکن ایک امید ہے اللہ سے کہ انشاء اللہ، میرا رب کل مجھے ایک اچھی صبح اور دن دیگا۔ ۔۔۔

سوری بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ میں جب لکھنے لگتا ہو ۔ تو دل چاہتا ہے کہ میں لکھتا جاوں۔ اللہ میرے لکھائی میں ایسا تاثیر ڈال دے ۔ کہ ملک کا کوئی بچہ جوان حتی کے ہر مسلمان ناامیدی کے اندھیرے سے نکل آئے۔ آپ بھی میرے لئے دعا کرتے رہو اور میرے ساتھ اس کوشش میں شامل ہو جاو۔

اچھا تو بات کر رہا تھا بڑے عہدے نوکر چاکر وغیرہ کا۔ جب تک انسان انسان بن کے جیتا رہا وہ اپنے رب کے نعمتوں کا قدردان اور شکر گزر رہا ۔ لیکن جب یہ حیوآن بن کے سوچنے لگا ۔ کہ میرا گھر ، میرا بنگلہ میرا پاور وغیرہ وغیرہ۔اور حیوانوں کی “میں ” اس میں داخل ہوتا رہا۔ وہ ایک بڑے بزرگ کا قول ہے کسی نے اس سے پوچھا میاں کسے ہو۔ کہنے لگا منہ اللہ کی نعمتیں کھا کھا کے تھک گیا ۔ لیکن زبان ہے۔ کہ ناشکری کی جا رہی ہے۔ ۔۔

ہم زندگی میں بڑا عہدہ چایتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اللہ نے سارے مخلوقات میں مجھے ہی اشرف المخلوقات بنایا ۔ ہم سیکورٹی گارڈز اور سیکرٹریوں کا فوج مانگتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اللہ نے دو محافظ اور سیکرٹری ہم پر مقرر کی ہے۔ ہم بڑا افس مانگتے ہیں۔ لیکن مسجد کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے۔ کہ اللہ نے ایک ایسا گھر دیا ہے جس میں ۔ میں جب چاہوں جا سکتا ۔ جو مانگو وہ ملتا ہے۔ اور دام بھی اس کا زیادہ ہوتا ہے۔ اور بادشاہ ہر وقت میرے انتظار میں ہوتا ہے۔ کہ کب میرا بندہ مجھے پکارے اور میں ان کو نوازو۔۔۔۔۔
ہم اپنے رب کے کونسے نعمت ، کون کون سے رحمت کا شکر ادا کریں ۔ اللہ کی نعمتیں زیادہ ہے اور ہماری زندگی مختصر بہت ہی مختصر بس ایک ہی ہچکی اور سب کچھ ختم ۔
وہ ایک شاعر کیا خوب فرماتا ہے-

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جسے سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

آج گزر گئے تو صرف چند دن تک لوگوں کی محفل میں یاد ہونگے ۔ اور پھر دنیا ہمیں بھول جائی گی۔ پھول تو پھر بھی کتابوں میں، شاعروں کے غزلوں میں مل جاتے ہیں۔ لیکن ہم بہت جلد گمنام ہونے والے مخلوق ہے۔

اللہ کے نعمتعوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور زندگی جیسے بھی کھٹن کیوں نہ ہو ایک دن ضرور آسان ہو جاتی ہے۔کیونکہ جو اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے۔ اور لوگوں کی زندگی میں آسانیاں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ میرا رب اسے کبھی تکلیف اور بھولنے نہیں دیتا-

وما علینہ الاالبلغ
تحریر #ارشدحسین

BARA UHDA, BARA DHOKA


اپنا تبصرہ بھیجیں