کر جوانی میں عبادت کاہلی اچھی نہیں
جب بڑھاپا آگیاپھر بات بن پڑتی نہیں
ہے بڑھاپا بھی غنیمت جب جوانی آچکی
یہ بڑھاپا بھی نہ ہوگاموت جس دم آگئ
عبادت کا بہترین وقت جوانی ہے
انسان زندگی کے تین مراحل سے گزرتا ہے، بچپن، جوانی اور بڑھاپا، بچپن کے دن یقینا بڑے سہانے اور حسین ہوتے ہیں، جس میں انسان ہر طرح کی ذمہ داریوں سے آزاد بس کھلنڈرانہ سی زندگی گزارتا ہے، ہر بچہ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کبھی جوان نہ ہو بس پوری زندگی بچپن کے مزے لیتا رہے، کیوں کہ بچپن ہی وہ حسین پل ہے جب وہ گھر او رخاندان کے ہر فرد کی توجہات کا مرکز بنا رہتا ہے۔ گھر اور خاندان میں جو جس قدر چھوٹا ہوتا ہے اس کے لاڈوپیار اور ناز ونخرے بھی اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں ، لیکن یہ ناز ونخرے اور لاڈ وپیار وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ کم ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ بچپن اور بوڑھاپا تقریباً برابر کازمانہ ہے، کیوں کہ بچپن میں ماں باپ بہن بھائی اور دیگر قریبی رشتہ دار اس کا خیال رکھتے ہیں تو ٹھیک اسی طرح بوڑھاپے میں اس کی اولاد اور اس کے قریبی رشتہ دار اس کے ضعف اور بزرگی کی وجہ سے اس کا خیال رکھتے ہیں ۔
انسانی زندگی کے ان تین مراحل بچپن، جوانی اور بوڑھاپے میں درحقیقت ”جوانی“ کا مرحلہ سب سے اہم اور ذمہ داریوں سے پر ہے۔ کہا جاتا ہے جوانی کے ایام میں لگایا ہوا درخت کا پھل ہی وہ اپنے بوڑھاپے کے زمانے میں کھاتا ہے۔ درحقیقت جوانی الله تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جس کا شکر تمام جوانوں پر واجب ہے۔ اسلام نے ایام جوانی کی عبادت کو خوب پسند کیا ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو اسلام نے زیادہ تر جوانوں کو ہی مخاطب کیا ہے، بچوں اور بوڑھوں کو براہ راست مخاطب نہیں بنایا گیا ہے- جوانوں کے سلسلہ میں بہت ساری احادیث مروی ہیں جن میں ان کے نیک عمل اور اس پر مرتب ہونے والے اجر وثواب کی بشارت ہے۔ ایک حدیث میں الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ایسے جوان کے بارے میں جس نے اپنی جوانی کے ایام کو الله کی عبادت او راس کی اطاعت میں گزارا ہو، فرمایا کہ قیامت کے دن جب ہر شخص پر نفسی نفسی کا عالم طاری ہو گا، کسی کو قیامت کے روز کی تمازت سے بچنے کے لیے سایہ مہیا نہیں ہو گا اس دن جن چند لوگوں کو الله تعالیٰ کا خاص سایہ حاصل ہو گا ان میں ایسا جوان بھی شامل ہو گا جس نے اپنی پوری زندگی کو الله کی اطاعت وفرماں برداری اور اس کی عبادت میں گزارا ہو۔ الله کے رسول صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:
”سبعة یظلھم الله فی ظلہ یوم لاظل الاظلہ امام عادل، وشاب نشا فی عبادة الله، ورجل قلبہ معلق بالمساجد، ورجلان تحابافی الله اجتمعا علیہ وتفرقا علیہ، ورجل دعتہ امرأة ذات منصب وجمال فقال انی اخاف الله، ورجل تصدق بصدقة فاخفاھا حتی لا تعلم شمالہ ماتنفق بیمینہ، ورجل ذکر الله خالیا ففاضت عیناہ․ ( متفق علیہ)
ترجمہ: قیامت کے دن سات طرح کے انسان کو الله کا سایہ حاصل ہو گا جس دن سوائے الله کے سایہ کے کسی اور طرح کا کوئی سایہ نہ ہو گا، ان میں سے امام عادل ، ایسا نوجوان جس نے اپنی جوانی الله کی عبادت میں گزاری، ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں معلق رہتا ہو ، دو ایسے انسان جو آپس میں ایک دوسرے سے محبت اور نفرت صرف الله کے لیے کرتے ہیں او رایسا شخص جسے کسی خوب صورت او رباحیثیت عورت نے گناہ کی دعوت دی اور اس نے کہا ہو کہ میں الله سے ڈرتا ہوں، اور ایسا شخص جو اتنی راز داری سے صدقہ کرتا ہو کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوسکے کہ دائیں ہاتھ سے کچھ دیا ہے او رایسا شخص کہ جب بھی الله کا ذکر کرے تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
ایک اور جگہ حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
’’جو جوانی میں عبادت کرے وہ عرش الہٰی کے سائے میں ہوگا کہ اسے قیامت کے میدان کی گرمی نہ پہنچے گی‘‘(صحیح بخاری)۔
شیخ سعدی رحمة الله علیہ کا بہت مشہور قول ہے:
درجوانی توبہ کردن شیوہٴ پیغمبری۔
آپ صلی الله علیہ وسلم کی جوانی کی زندگی میں آج کے جوان کو جو نقوش ملتے ہیں ان میں بنیادی او ربہت گہرا نقش تو یہ ہے کہ آج کا جوان اپنی جوانی میں سچائی، دیانت داری اور شرافت کا پیکر بن جائے اور اس کی خوبیوں کے معترف سب سے پہلے اس کے گھر والے ہوں جن کے درمیان وہ اپنا دن ورات گزارتا ہے پھر اس کے رشتہ دار اس کی خوبیوں کے معترف ہوں اور آج کے نوجوان پر جب معاشی ذمہ داریاں آجائیں تو اچھے سے ان ذمہ داریوں کو نبھائے-حیات طیبہ کے نقش میں ہی زندگی گزارنا ہم مسلمانوں کا فریضہ ہے اسی میں کامیابی وکامرانی ہے۔