کوئی ہے جو مجھے سعد کی خبر لا دے


محمد صلى الله عليه وسلم انا خاتم النبيين بعدی لانبی

“کوئی ہے جو مجھے سعد کی خبر لا دے”
نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ احد کے دن جب جنگ ختم ہو گئی تھی تو فرمایا، کوئی ہے جو مجھے سعد ابن ربیع کی خبر لا دے،

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں اللہ کے رسول میں یہ حکم بجا لاؤں گا، نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر سعد تمہیں زخمی حالت میں ملے تو اس کو میرا سلام کہنا، صحابی کہتا ہے میں لاشوں میں دیکھتا رہا مجھے سعد کی لاش نہ ملی، میں نے زندوں میں دیکھا سعد نہیں ملا، زخمیوں میں گیا تو میں نے دیکھا سترہ آدمی زخمی ہیں ان زخمیوں کے نیچے زخموں سے چور سعد تڑپ رہا ہے،

میں نے نیچے سے سعد کو نکالا اور نکال کر کہا، تجھے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام بھیجا ہے، ہاں ہاں، اس نبی نے کہ ساری کائنات جس پر سلام بھیجتی ہے دیکھو اس نے سعد کو سلام بھیجا ہے،

اتنا کہنا تھا سعد ابن ربیع جوش سے اٹھتا ہے، زخمی شیر کی طرح اٹھنا چاہتا ہے، کہا نبی نے مجھے سلام بھیجا ہے، اٹھنا چاہتا ہے مگر تڑپ کر زمین پر گر جاتا ہے جب اٹھا نہ گیا تو سعد نے کہا، اے بھائی ! میرے نبی کو میرا سلام کہنا اور میرے نبی کو کہنا کہ میرے لیے دعا کریں، اور میرا یہ پیغام دینا کہ اگرچہ نیزے اور تیر میرے جسم سے آڑ پار ہو گئے لیکن میں نے اپنے قاتل کے جسم سے بھی نیزہ پار کر دیا اور اسے جہنم واصل کر دیا ہے اور میری قوم انصاریوں کو جمع کرنا، اور کہنا

انصاریو! میرے نبی کے نام پر کٹ جانا، مٹ جانا، لٹ جانا، ذبح ہو جانا، ٹکڑے ٹکڑے ہو جانا،

اگر نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر آنچ بھی آئی تو قیامت کے دن تمہارا سردار تمہیں پکڑے گا، اگر رسول پاک کو کچھ ہو گیا اور تم میں سے ایک بھی زندہ ہوا تو قیامت کے دن بارگاہ الہی میں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں ہو گا

ہم نے لیلۃ العقبہ میں رسول پاک پر فدا ہونے کا حلف اْٹھایا تھا۔‘‘ یہ کہا اور ہچکی لے کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ربیع کے آخری الفاظ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیے تو نبوت کے ہاتھ بلند ہوئے :

اللہ سعدؓ کو اپنے دامن رحمت میں جگہ دے۔ زندگی اور موت دونوں میں اللہ اور اللہ کے رسول کے بہی خواہ رہے،

طبقات الکبری ابن سعد،

یہی وہ سعد بن ربیع ہیں جن کا رسول پاک نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے بھائی چارہ کروایا، اور انہوں نے عبدالرحمن بن عوف کو کہا تھا میرے پاس بہت دولت ہے آدھا مال تم کو دے دیتا ہوں میری دو بیویاں ہیں تم دونوں کو ایک نظر دیکھ لو جس کو کہو گے طلاق دے دوں گا اس کے بعد تم اس سے نکاح کر لینا، لیکن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان کی پیشکش قبول نہ کی مگر ان کو بہت دعائیں دی اور کہا آپ مجھے صرف بازار کا راستہ دکھا دیں،

پھر ایک وقت آیا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مدینہ کے سب سے بڑے تاجر بن گئے،

صحیح بخاری۔ کتاب المناقب باب اخاء النبی بین المہاجرین و الانصار
وہی صحابی ابی بن کعب جو سعد کو لینے گئے تھے، مدینہ منورہ کی ایک گلی سے گزر رہے ہیں ، کہتے ہیں میں نے دیکھا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے مکان کے دروازے پر چٹائی بچھا کر لیٹے ہیں اور ایک چھوٹی سی بچی ابوبکر کے سینے پر کھیل رہی ہے،

ابوبکر صدیق بچی کو چومتے ہیں، اسے سینے لگاتے ہیں، میں نے کہا ابوبکر یہ آپ کی بچی ہے؟

ابوبکر صدیق تڑپ گئے
کہا یہ میری بچی نہیں سعد ابن ربی کی بچی ہے، میں اس لیے اسے پیار کر رہا ہوں، کہ جب سعد کا آخری وقت تھا

اس نے یہ تو کہا تھا کہ میرے نبی کی حفاظت کرنا، اس نے یہ نہیں کہا میری بچی کا خیال کرنا،
وہ یتیم بچی چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا، اور رہتی دنیا تک کے لوگوں کو بتا گیا،

اگر نبی محمد صل اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم باقی ہیں تو سارا جہاں باقی ہے،
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدرو قیمت میں خون جن کا حرم سے بڑھ کر

KOI HA JO MUJHE SAAD KI KHABAR LA DY


اپنا تبصرہ بھیجیں