میں نے اس کے سر کو نرم انگلیوں سے تھاما اور اپنا 35 برس کا پرانا مجرب دم کرنے لگا یہ وہی دعا ہے جو دہائیوں سے میرا معمول ہے
وہ پیارا اور دین کے لئے قیمتی انسان ان دنوں ذہنی تھکن و اکتاہٹ کا شکار ہے ہماری کافی دیر کی گفتگو کے بعد میں اس نتیجے تک پہنچا تھا یہ دراصل اللہ کے دین کے لئے ایک قیمتی انسان کو بے کار کرنے کی شیطانی کوشش ہے جسے رحمانی کلام سے ناکام بنایا جانا چاہئیے میں نے اسے اعوذ باللہ اور لا حول کے ورد کا مشورہ بھی دیا-
بات چل نکلی تو میں نے کہا اسی طرح ایک بار ہمارے استاد صاحب کو کسی نے کہہ دیا تھا کہ اس دم وم سے کچھ نہیں ہوتا انہوں نے اسے سب کے سامنے برا بھلا کہہ دیا اس پر وہ آدمی غصہ میں آ گیا اور استاد صاحب کو مارنے دوڑا تب استاد صاحب نے اس سے معذرت کی پانی پلایا اور پوچھا بھائی کیوں ناراض ہو گئے مین نے تو تمہیں چھوا تک نہیں وہ بولا چھوا تو نہیں مگر آپ کی بات نے آگ لگا دی وہ مسکرا کر بولے اگر میرے الفاظ اتنی دور سے سن کر آگ لگ سکتی ہے تو اس حی و قیوم کے الفاظ میں سوچو کتنی جان ہو گی۔
اللہ کے کلام پر پورا بھروسہ پیدا کریں کچھ آیات کو معمول بنائیں ورد ان سے آپ کے تعلق کو گہرا کر دیتا ہے اللہ کی آیات اقامت دین کے لئے بھی ہیں اور دلوں اور جسموں کی اصلاح کے لئے بھی شیطان بڑا ماہر نفسیات ہے وہ ہر ایک پر اس کے حساب سے حملہ آور ہوتا ہےاور خاص طور پر جو کچھ بچے کھچے قیمتی ذہن ہمارے پاس ہیں ان پر تو وہ اپنے سب سے عیار چیلے چھوڑتا ہے اس لئے اس کے شروراور وساوس سے پناہ کے لئے اللہ ہی کا در سب سے معتبر ہے۔!
خودکلامی۔۔۔ زبیرمنصوری