اشفاق احمد مرحوم فرماتے ہیں کہ میں اپنی اہلیہ بانو کے ساتھ انگلینڈ کے ایک پارک میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں تبلیغی جماعت کے کچھ نوجوان چہل قدمی کرتے ہوئے پارک میں آئے، اتنے میں مغرب کا وقت ہوا تو انہوں نے وہیں جماعت شروع کر دی۔
ان نوجوانوں کو نماز پڑھتا دیکھ کچھ نوجوان لڑکیوں کا ایک گروپ ان کے پاس پہنچا اور نماز مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ آو دیکھتے ہیں کہ ان کے درمیان کیا بات ہوتی ہے۔
مرحوم فرماتے ہیں کہ ہم دونوں میاں بیوی وہاں چلے گئے اور نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے۔
نماز ختم ہوتے ہی ان میں سے ایک لڑکی نے آگے بڑھ کر جماعت کروانے والے نوجوان سے پوچھا کہ کیا تمھیں انگلش آتی ہے؟
تو نوجوان نے کہا کہ جی ہاں آتی ہے۔
تو لڑکی نے سوال کیا کہ تم نے ابھی یہ کیا عمل کیا؟
تو نوجوان نے بتایا کہ ہم نے اپنے رب کی عبادت کی ہے۔
تو لڑکی نے پوچھا آج تو اتوار نہیں ہے تو آج کیوں کی؟
تو نوجوان نے اسے بتایا کہ یہ ہم روز دن میں پانچ بار یہ عمل کرتے ہیں، تو لڑکی نے حیرت سے پوچھا کہ پھر باقی کام کیسے کرتے ہو تم؟
تو اس نوجوان نے اسے مکمل طریقہ سے پوری بات سمجھائی۔
بات ختم ہونے کے بعد لڑکی نے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو نوجوان نے کہا کہ معذرت کے ساتھ میں آپ کو چھو نہیں سکتا، یہ ہاتھ میری بیوی کی امانت ہے اور یہ صرف اسے ہی چھو سکتا ہے۔
یہ سُن کر وہ لڑکی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور روتے ہوئے بولی کہ اے کاش! یورپ کا نوجوان بھی اسی طرح ہوتا تو آج ہم بھی کتنی خوش ہوتی۔
پھر بولی کہ واہ کتنی ہی خوش نصیب ہے وہ لڑکی جس کے تم شوہر ہو۔
یہ کہہ کر وہ لڑکی وہاں سے چلی گئی۔
اشفاق مرحوم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ”بانو! آج یہ نوجوان اپنے عمل سے وہ تبلیغ کر گیا جو کئی کتابیں لکھنے سے بھی نہیں ہوتی۔”
بے شک عزت اور سر بلندی اسلام میں ہی ہے –
میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والی جاؤ یورپ میں عورت کا حال دیکھو اور اللّٰہ کا شکر ادا کرو تم مسلمان پیدا ہوئی ہو.
یا اللہ ہمیں اپنی خاص رحمت سے دین اسلام پر صحیح طرح عمل کرنے کی توفیق عطا فرما اور دین اسلام پر استقامت عطا فرما.
آمین ثم آمین یا رب العالمین